آج کل ہر طرف ہر قسم کے کورس کیے اور کرائے جارہے ہیں۔ ویلڈنگ کا کورس ، ریفریجریٹر اور ائیر کنڈیشن کا کورس ، سلائی کڑھائی کا کورس تو چلیں پہلے بھی ہوتا تھا ۔ پھر وقت کچھ آگے کو سرکا تو کھانے پکانے بلکہ یو کہیئے بجٹ کا کباڑا کرنے کے کورس شروع ہوگئے۔ پھر فلاور میکنگ مٹکوں اور گملوں پہ پھول اگانے کے کورس ، موم بتی سے انڈے ڈبل روٹی بنانے تک بلکہ دوسروں کو للچانے کے کورس بھی آگئے مگر اب تو حالت ہی کچھ یوں ہے کہ
آئیے رائیٹر بنیئے ، صرف چھ ماہ میں ہم آپ کو مکمل مصنف بنادینگے پھر آپ افسانہ لکھیں یا ناول کتاب لکھیں یا کتابچہ ہمارے ادارے سے کورس کے بعد ہی لوگ آپ کو پڑھیں گے۔
مکمل عوامی پسندیدگی کی ایک سالہ گارٹی
آئیے شاعر بنیئے
ہم آپ کو شعر غزل نظم ہی نہی بلکہ قطعات و رباعیات بھی کہنا سکھائیں گے۔ فقط ایک سال میں آپ مشاعروں کے رونق بننا سیکھ جائیں گے
تالیوں اور واہ واہ کی گارنٹی ہماری
اب جو یہ حال دیکھا توکچھ اداکاروں نے بھی ایک کورس شروع کردیا۔ آئیے اداکار بنیئے۔ حالانکہ بقول شیکسپئیر ہم تو پہلے ہی سے اداکار ہیں۔ بلکہ اداکار ہی کیا ہم تو بیک وقت اداکار ، سوری اداکارہ ، گلوکارہ ، ادیبہ ، شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ باورچن، دھوبن ( جو صرف آٹومیٹک مشین سے کپڑے دھو سکتی ہے ) درزن ، ٹیچر ، ڈاکٹرنی اور بھی پتہ نہیں کیا کیا ہیں۔ نقاد تو خیر ہم سے اچھا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسی ایسی اعلیٰ معیار کی چیزوں میں سے ہم کیڑے نکالتے ہیں کہ لوگ تو لوگ بسا اوقات ہم خود بھی دنگ رہ جاتے ہیں کہ اللہ نے کیا صلاحتیں بخشی ہیں۔
اب یہی مثال دیکھ لیں کہ ہماری ساس اللہ بخشے بڑی عبادت گزار خاتون تھیں۔ سارا محلہ ان کی تعریف کرتا تھا مگر یہ تو ہم ہی جانتے ہیں ناں کہ ان میں۔۔۔۔خیر جانے دیجیئے۔ تو ہم یہ کہہ رہے تھےکہ اکثر تو ہمیں صرف کیڑے ہی نظر آتے ہیں کہ ایسی باریک بین نگاہ ہے ہماری۔تو جناب مسئلہ یہ ہے کہ صلاحیت سے کیا ہوتا ہے فی زمانہ کورس کی اہمیت ہے تو سو ہے۔زمانے کا چلن جو بھی ہو انسان کواس کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے اب جب سے ہم نے یہ سنا کہ زمانہ قیامت کی چال چلتا ہے ہم نے بھی اپنی چال بدلنے کی کوشش کی۔ مگر برا ہو زمانے کا پھروہ ہم سے آگے نکل بھاگا اور ہم کوے کی طرح ہنس بننے کی سعادت سے محروم ہی رہ گئے۔ خیر تو بات ہورہی ہے کورس کی کہ ہم کون سا کورس کریں کہ ترقی کی راہوں پہ تین انچ کی پینسل ہیل پہن کر کھٹا کھٹ کرتے اپنی قیامت زدہ چال چلتے ہوئے اوپر ہی اوپر چڑھتے جائیں۔ دراص مسئلہ ہی اب پیدا ہوا ہے کہ کورس کرائے گا کون ؟؟ اب کورس کرانے والا کون ہو ، بھئی کوئی اپنے قابل بندہ ہی ہمیں کورس کراسکتا ہے ناں ، کہاں ملے ایسا بندہ ؟؟
دوسری ٹینشن یہ ہے کہ کورس کون سا کیا جائے کیونکہ ماشاءاللہ صلاحتیں تو ساری ہی ہیں ہم میں۔ ویسے تو خیر ہم اپنے بارے میں نہایت پر اعتماد ہیں اور پھر سارے بڑےبڑے لوگوں نے کون سا کورس کیے تھے بھلا ؟
ہم نے خود پڑھا تھا اشفاق احمد ،ابن انشاء ،اپنے چچا غالب اور ایک اور بڑےاچھے شاعر تھے جن کو شاید درد بہت ہوتا تھا اللہ جانے درد قولنج ہوتا تھا یا لنگڑی کا درد انھوں نے بھی کورس تو کوئی نہ کیا تھا اب اگر ہم بھی کوئی کورس نہ کریں تو اس میں بھلا کیا مذائقہ ہے؟
مگر اب ہم نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ خود چاہے کورس نہ کریں مگرکوئی نہ کوئی کورس کرائیں گے ضرور۔ اپنے فیس بکیوں سے کیونکہ ہم بہت انسیت محسوس کرتے ہیں تو سو بسمہ اللہ آپ ہی سے کرتے ہیں لہذا آپ شاعر ، ادیب ، دانشور ، محقق یا سائینٹسٹ جو بھی بننا چاہتے ہیں اور ہاں انجینئر بھی البتہ ڈاکٹرنی کا کورس ہم کسی کو ہرگز نہیں کرائیں گے ، ( یہ ہماری روٹی روزی کا معاملہ ہے)
سو جلد از جلد کورس کے شائقین ہم سے رجوع کریں۔ اس خدمت سے فارغ ہوتے ہی کیونکہ ہم امریکہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس لئے فیس اصلی ڈالرز میں ہوگی دخواست کے ساتھ صرف دوسو ڈالز کا پے آڈر بھی ارسال فرمائیں۔
خدمت کے جذبے سے سرشار
ڈاکٹرنی جی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn