ہم ایک ایسے استحصال زدہ مظلوم معاشرے میں موجود ہیں ،جہاں ہمیں پانچ سال میں ایک بار اپنے ہاتھوں سے اپنے اوپر ظلم مسلط کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔اسے ظلم نہ کہا جاتا اگر قومی مفاد کو ذاتی مفاد سے بالا تر سمجھا جاتا، نمائندوں سے زیادہ ہمیں لیڈروں کا سامنا ہوتا ، حکومتی نظام عدل و انصاف سے پاک نہ ہوتا، عوام کی حکومت عوام کے لئے ہی صرف ہوتی ، ذاتی مفاد کے حصول کے لئے مذہب کا سہارا نہ لینا پڑتااور اگر ہر دوسرے دن سوال اٹھانے پہ غدار نہ ٹہرائے جاتے ۔
نسیم جاوید نے نمائندہ اور لیڈر میں بنیادی فرق واضح الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
فرماتے ہیں۔”لیڈر وہ ہوتا ہے جو دانا ہو، قانون سازی کو جانتا ہواور اسمبلی میں جاکر قانون سازی کرے ،بل پیش کرے اور اس بل پر بحث کرے ۔نمائندہ وہ ہے جو پانچ سال تک کمیشن کے تحت صرف بجلی کے کھمبوں اور سڑکوں کی مرمت کراتے وقت اپنے نام کی تختیاں لگاتے ہیں ۔”
بیشتر اوقات ہمیں ایسے ہی نمائندوں و سیاستدانوں کا سامنا ہوتا ہے جو وزنی معدے کے ساتھ اپنے کردار پہ پردہ ڈال کر وطن کی خدمت کرنے سے زیادہ اپنے نام کی تختیاں لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ہر کوئی اپنی تجوری بھرنے کے چکر میں ہے، سیاست کو عبادت کے بجائے اپنی کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم آزاد پیدا ہونے کے باوجود بھی اَن دیکھی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں اور اِن زنجیروں کے دوسرے سِرے ہمارے نام نہاد نمائندوں کے ہاتھوں میں ہیں جوجب چاہیں جہاں چاہیں اِن کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔ ہم جہالت کے یرغمالی ہیں اور ہمارے پاس خود کو چھڑوانے کے لئے تاوان بھی نہیں ۔جب گرماگرم تقریر کرتے ہوئے نام نہاد نمائندے لوگوں کو تشدد کرنے پر اکساتے ہیں اور معاشرے میں نفرت کا پودا زبردستی اگایا جاتاہے۔ عوام کو تشدد پر اکسایا جاتاہے، تشدد کروایا جاتا ہے اور پھر دوسرے تیسرے دن مذمت کے بول بھی انہی کی زبان سے ہم سنتے ہیں ۔کبھی کبھی یہ لوگ اپنی ساکھ بچانے کے لئے دوسروں کی عزت سر بازار نیلام کرتے ہیں۔
عوام اِن معززین کے وزنی معدے تلے دب گئے ہیں،جن کا مقصد خود کو آسائشیں مہیا کرنا ہے۔ کہیں دھماکہ یا حملہ ہوجائے تو یہ نمائندے مذمت کرکے اپنی جا ں خلاصی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں آئے دن اسلام کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، حالانکہ خطرہ اسلام کو نہیں اُن لوگو ں کو ہوتا ہے جو اسلام کے ٹھیکدار بنے پھر رہے ہوتے ہیں۔عوام کو انہی ٹھیکداروں کی ولولہ انگیز تقریروں کی مدد سے قومی مفاد اور قومی غیرت کے نام پہ بیوقوف بنایا جاتاہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں ۔
"عام لوگوں کو قومی مفاد یا قومی غیرت کے نام پہ ہمیشہ بیوقوف بنایا گیا اور انھیں فاتحین اور حملہ آوروں کی عظمت کے لئے لاکھوں کی تعداد میں قتل کروایا جاتا رہا ۔”
طاقت کا سرچشمہ ریاست ہوتا ہے مگر جب ریاست کا بے لگام گھوڑا اخلاص سے عاری ایک سیاستدان کے لگام میں آجائے پھر یا تو سفید پوش فرشتوں کی مدد سے حقیقت پسندوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے، کبھی اپنے من پسند کو اوپر لایا جاتا ہے ، کبھی ملک کی تجوریاں خالی کرکے دوسری جگہ منتقل کرنے کے بعد ملک کو قرض دار بنایا جاتاہے، کبھی پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو کبھی نظر بند کیا جاتا ہے ۔
ہمارے کچھ بے باک اور حقیقت پسند قلم کار جو اپنی تحریروں سے عوام میں شعور پیدا کرنے آگے آتے ہیں، انھیں بھی کبھی فحش نگار، ملک دشمن، اسلام دشمن قرار دے کر ہمارے سیاستدان اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔مصنفین اور شاعروں نے عوام میں شعور اُجاگر کرنے کے لئے بہت کچھ لکھا مگر شاید ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔
تم حیا اور شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مے خانے میں خدا دیکھا ہے
شاعر نے جن "احرام میں لپٹے ابلیسوں ” کی بات کی ہے، آج ہم گونگے بہروں کی بھیڑ بنا کر ان کے پیچھے چل دئیے ہیں کہ جہاں سے لوٹنا ہمارے لئے ناممکن ہے یا شاید ہم نے خود ناممکن بنادیا ہے ۔ذمہ دار کون ہے، تعین ہونا باقی ہے مگر معاشرے میں "ٹھونسے گئے نظریات ،انڈیلی گئی تاریخ اور زبردستی نصاب کی بدولت غلام ہی پیدا کئے جاسکتے ہیں لیڈر نہیں”
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn