آپ اور میں ،ہر گذرتے پل کے ساتھ پاکستان اور اسکی عوام کی ہر حرکت پر تنقید کرتے ہیں ۔ تنقید تک تو ٹھیک تھا لیکن اب تو تنقید کب تذلیل میں بدل جاتی ہے ، ہم خود اندازہ نہیں کر پاتے ۔
بیٹھے بیٹھے آج یہ خیال آیا کہ اگر ہم سب ہی قلم پکڑ کر پاکستان پر تنقید میں مصروف رہے گے تو اس کے کچھ مثبت پہلو بھی تو ہیں ، اس پر کون اور کب لکھے گا ؟ یہی سوچ کر آج اپنے حصّے کا دیا جلانے کی کوشش کرنے جا رہی ہوں ۔
روشن پاکستان ان لوگوں کی کہانی نہیں جو اس ملک کا 1% ہیں ، جن کو ہر چیز پلیٹ میں سجی ملتی ہے ( یعنی امیر طبقہ) بلکہ یہ ان 99% کی کہانی ہے ، جو کسی نہ کسی طرح خود کے لئے حالت کو سازگار بنا کر آگے بڑھتے ہیں ۔ یعنی آپ اور میں (عام انسان Middle class , lower middle class)۔
آج روشن پاکستان میں جو کہانی میں لکھ رہی ہوں ، وہ ہے رفیعہ کی ۔
رفیعہ سے میری پہلی ملاقات تب ہوئی، جب وہ میری امی کے پاس کام کی تلاش میں آئ۔
وہ ایک خاموش سی اداس لڑکی تھی ، اسکی شادی تو تب ہی ہو گئ تھی جب وہ 12 برس کی تھی ، مگر وہ باقاعدہ سسرال میں تب آئ جب اسکی عمر 18 برس ہو گئ ۔
اور آتے ہی اسے اپنا پیٹ پالنے کے لئے کام کاج کی تلاش شروع کرنا پڑی
امی نے اسے کام پر رکھ لیا ۔
تھوڑے دن بعد پتہ چلا رفیعہ امید سے ہے ، وہ اس خبر سے کچھ خاص خوش نہ تھی ۔
ایک دن میں نے اس سے بات کی کہ وہ اتنی ناخوش کیوں ہے ؟
اس نے بولنا شروع کیا ۔
” باجی میں ایک دن گھر بیٹھ کر نہ کھا سکی، شوہر نے کہا کھانا کھاؤ گی تو کمانا بھی پڑے گا ۔
اب بچہ ہو گا تو یہ لوگ اسے بھی چھوٹی سی عمر میں کام کاج پر لگا دیں گے ۔
وہ سڑکوں پہ ننگا پھرے گا ، برے دوست بنائے گا ، ظاہر ہے میں اس کی تربیت ہی نہیں کر پاؤں گی کیوں کہ میں تو کام پر ہوں گی ۔
اسکے آنسو اور زبان سے نکلتا ہوا ہر لفظ اسکی تکلیف ظاہر کرنے کے لئے کافی تھا ۔
میں نے اسے پیار سے پاس بٹھایا اور کہا اگر یہ سب نہ ہو تو تم اس بچے کی پیدائش پر خوش ہو گی ؟
رفیعہ بولی ظاہر سی بات ہے باجی ۔
میں نے کہا ٹھیک ہے ، پھر اس ننھے فرشتے کو اس دنیا میں آنے دو ، اسے پڑھاؤں ،اپنی اور اسکی آنے والی زندگی بہتر بناؤ۔
اس نے مجھے گھورا اور بولی ، باجی ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟میرا بچہ اور پڑھ لکھ جائے ۔
میں نے کہا تم تہیہ کرو باقی اللّه پر چھوڑ دو ۔
اللّه نے رفیعہ کو بیٹے سے نوازا ۔
میں نے اسے کہا یاد رکھنا اسے پڑھانا ہے۔
وہ کہنے لگی ،” باجی میں تو 3000روپے کماتی ہوں ، اسے پڑھاؤں گی یا کھانا دو گی؟ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔
اس نے بیٹے کا نام میرے چھوٹے بھائی کے نام پر رکھا ۔
عبدالله
پہلے دن سے ہی میں نے رفیعہ کو کہا کہ اس سے اردو میں بات کرو اور اسے چھوٹی چھوٹی باتیں سیکھاؤں اور سمجھاؤں ۔
صاف رہنے کی عادت ڈالو ۔
جب عبدالله 3 سال کا ہو گیا تو ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اب یہ اسکول جانے کے لائق ہو گیا ہے ۔
اب مشکل یہ تھی کیا اخراجات کہاں سے ادا ہو ؟میری امی اور بہنوئی نے اس کار خیر کی حامی بھر لی ۔
اصل مسلہ تھا اسکول میں داخلہ کیسے کروایا جائے؟ کیوں کہ رفیعہ پڑھی لکھی نہیں تھی اور اسکول کی پرنسپل ان پڑھ لوگوں کے بچوں کو داخلہ نہیں دیتی تھی ۔
میری بڑی بہن نے بہت کوشش کی اور آخر کار عبدالله کا اسکول میں داخلہ ہو گیا ۔
پہلے پہل مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، رفیعہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ جھگی( جھونپڑی )میں رہتی ہے ۔اسکول کے بچوں نے عبدالله کا بہت مذاق بنایا پھر آہستہ آہستہ سب نارمل ہوتا گیا ۔
عبدالله کو اسکول جاتے ہوے 2 سال ہو گئے ہیں ، وہ اپنے ساتھ رہنے والے باقی بچوں سے مختلف ہے ، نہ کبھی سڑک پر پھرتا نظر آیا نہ پنجابی میں گالیاں دیتے ہوئے ۔
صاف ستھرا ، پڑھائی میں مگن ، کچھ کر جانے کی لگن سے بھرپور وہ بچہ آنے والے وقت میں ضرور اپنی ماں اور بھائیوں کے بہتر مستقبل کی وجہ بنے گا ۔
رفیعہ کے دو اور بیٹے ہیں ، اور وہ عبدالله کی طرح ان کو بھی پڑھانا چاہتی ہے ۔
ابھی شائد حالت بدلنے میں بہت وقت ہے ، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ رفیعہ نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے ، امید ہے آگے اللّه راستے بناتا جائے ۔
اگر آج یہ تحریر پڑھ کر آپ میں سے کوئی ایک بھی اپنے گھر میں کام کرنے والے بچوں کو یا جو کام کرتے ہیں ان کے بچوں کو اسکول تک رسائی میں کوئی بھی مدد دے دیں تو میں سمجھوں گی ، یہ تحریر لکھنے کا مقصد پورا ہو گیا ۔
آخر پاکستان کو روشن میں اور آپ مل کر ہی تو کریں گے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn