Qalamkar Website Header Image

شیعہ نسل کشی کا میدان ازسر نو ترتیب پا رہا ہے – دوسرا حصہ

تحریر کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں

برصغیر پاک و ہند میں تعصبانہ فضاء کے قیام کی وجہ بننے والے دیوبند مکتب کی اس سوچ کا پہلا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اور ان کو غلام اور لونڈیاں بنا کر فروخت کرنے کا عمل تھا جس کے نتیجے میں افغانستان کے ہزارہ قبیلے کی آبادی میں 60 فیصد تک کمی آ گئی۔ [حوالہ: Afghanistan: Who are the Hazaras? Taliban ۔ Al Jazeera]

امیر عبد الرحمن خان نے اپنی  حکومت کا نظام چلانے کے لئے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنہوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔  یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے کوئٹہ آ گئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لئے پناہ گاہ ثابت ہوا۔

پاکستان کے قیام کے بعد بھی مغربی پاکستان کے مختلف شہروں میں چھوٹی موٹی جھڑپیں تو ہوتی رہی ہیں مگر کبھی بھی شیعہ نسل کشی کا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں جب اقتدار سنبھالا تو ایک سال بعد افغانستان میں نور محمدتراکئی کی انقلابی حکومت قائم ہوئی اور ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب کامیاب ہوا۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے نورمحمد تراکئی کی حکومت کے خاتمے کا منصوبہ تیار کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت اس منصوبے میں شریک ہوگئی۔ افغانستان کی انقلابی حکومت کے خاتمے کے لئے پاکستان میں مجاہدین کے اڈے قائم ہوئے۔ پوری دنیا سے ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو افغان جہاد میں شرکت کے لئے پاکستان میں جمع کیا گیا۔ امریکی سی آئی اے نے صوبہ سرحد سے متصل پاڑہ چنار کے قبائلی علاقے کو افغانستان میں مداخلت کے لئے لانچنگ پیڈ کے طور پر منتخب کیا۔ یوں سرکاری سرپرستی میں پاڑہ چنار میں پہلا فرقہ وارانہ فساد منظم ہوا اور شیعہ علماء کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی۔ معروف شیعہ قائد علامہ عارف الحسینی بھی جنرل ضیاء کی اسی غلیظ سوچ اور سی آئی اے کے گٹھ جوڑ کا شکار ہوئے۔ علامہ عارف الحسینی شہید کے قتل کے پیچھے جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن کی طرف سے افغان جنگ کے لئے ملے یوئے امریکی اسٹنگر میزائلز کو چوری کرکے عراق۔ ایران جنگ میں بیچنا، اور جنرل فضل حق کا قبائلی علاقوں میں ہیروئن بنانے کی فیکٹریوں کا مالک ہونا جیسے عوامل بھی شامل تھے۔ جن کے خلاف علامہ عارف الحسینی شہید کی طرف سے چلائی جانے والی مہم کی عوام میں تیزی سے مقبولیت سے جنرل ضیاء رجیم (regime) سخت خوفزدہ ہو چکی تھی۔

جنرل ضیاء اور سی آئی اے نے پاڑہ چنار کو افغانستان میں فساد پھیلانے کے لئے مستقل لانچنگ پیڈ بنانے کے منصوبہ میں ناکامی کے بعد شیعوں کو سبق سکھانے کے لئے سعودی عرب، عراق اور لیبیا کے فراہم کردہ سرمائے سے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسی شدت پسند تنظیمیں قائم کر دیں۔ اس کے علاوہ جنرل ضیاء نے جان بوجھ کر ملک میں متنازعہ اسلامی قوانین نافذ کئے۔ ان قوانین کی پیپلزپارٹی سمیت تمام لبرل اور ترقی پسند جماعتوں نے مذمت کی اور ان قوانین سے شیعہ کمیونٹی شدید متاثر ہوئی۔ غلطی مگر یہ ہوئی کہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے بعض علماء نے جنرل ضیاء کے خلاف جمہوری اور روشن خیال جماعتوں کی جدوجہد میں حصہ لینے کی بجائے فرقہ وارانہ بنیادوں پر دھرنے اور احتجاج کا طریقہ اختیار کیا۔ اس پالیسی کے تحت پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد میں دھرنے دئیے گئے۔ اگرچہ ان دھرنوں کی بناء پر فوجی حکومت کچھ مطالبات ماننے پر تیار ہو گئی مگر سعودی عرب، لیبیا اور عراق کی حکومتوں کو مسلح تربیت یافتہ دیوبندی فقہ کے انتہاپسندوں کو متحرک کرنے کا موقع مل گیا۔ ان انتہا پسندوں کو سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، حرکت المجاہدین، جند اللہ وغیرہ کی چھتری مہیا کی گئی اور انہوں نے 1985ء سے اب تک 85 ہزار عام لوگوں کا قتل عام کیا ہے جن میں شیعہ فرقہ کے 25 سے 30 ہزار لوگ بھی شامل ہیں جبکہ ان کے علاوہ سنی بریلوی فقہ کے ماننے والے، معتدل مزاج دیوبندی، سکول جانے والے معصوم بچے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاران اور فوجی افسران بھی ان دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ فساد افغانستان کے بعد شیعہ نسل کشی کی اس تحریک کو امریکہ میں 9/11 جیسے واقعات، لندن میں 7/7 جیسی دہشت گردانہ کاروائیاں اور انڈین پارلیمنٹ کے علاوہ ممبئی حملے، اے پی ایس سکول حملہ، لال مسجد پر دہشت گردوں کے قبضہ جیسے واقعات ایندھن مہیا کرتے رہے ہیں۔ افغانستان پر امریکی حملہ اور شمالی اتحاد کے افغانستان پر قبضہ کے بعد چلنے والی گوریلا جنگ کے دوران جب بھی طالبان دہشت گردوں کو مواقع ملے، انہوں نے شیعوں پر حملے کئے۔ طالبان حکومت میں مزار شریف اور کابل میں شیعہ نسل کشی، ایران جانے والے شیعہ زائرین کی بسوں پر حملے، گلگت جانے والی مسافر بسوں کو روک روک کر شیعہ مسافروں کے قتل عام، ہزارہ شیعہ آبادی پر بڑے حملوں، شیعہ ڈاکٹروں. وکیلوں، تاجروں، اعلی سرکاری عہدے داروں، سیاستدانوں، کھلاڑیوں اور شیعہ مذہبی تنطیموں کے عہدے داروں اور کارکنوں کے قتل عام میں تکفیری دیوبندی جماعتوں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، حرکت المجاہدین، جند اللہ وغیرہ کے کارکنان ہی شامل رہے ہیں اور یہی جماعتیں ان قاتلوں کے مقدمات کی پیروی کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  عظمیٰ بنام اعظم | مجتبیٰ شیرازی

حالیہ چند سالوں میں عرب بیداری کے دوران بھی عراق اور شام میں خلافت داعش، خلیفہ اور دارالخلافہ کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا اور گلے کاٹنے والوں سے ہمدردی رکھنے والے اور مال غنیمت اور لونڈیوں کی خرید و فروخت کو ایمان کا حصہ سمجھنے والے جنت کی تلاش میں ایک جگہ جمع ہو رہے تھے۔ اور ان داعشی درندوں کی حمایت میں پاکستان میں ان کے حمایتی ان ہی جماعتوں یعنی سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، حرکت المجاہدین، جند اللہ وغیرہ کے وابستگان اپنے جذبات سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پہ اپنے دل کی سیاہی سے رقم کر رہے تھے۔ خود ساختہ، ٹوٹے دانتوں والے بھیڑیا نما تجزیہ نگار قاتلوں کے جتھے کی فتوحات کو سرشاری میں اپنی فتح سمجھ رہے تھے۔ اردن کے پائلٹ کے جلائے جانے کی ویڈیو دیکھ کر تالیاں بجانے والے، مفتوحہ عورتوں کی خرید و فروخت کے شرعی جواز ڈھونڈنے والے اور ابوبکر بغدادی کی جاری کردہ اشرفیوں میں اپنا معاشی مستقبل ذھونڈنے والے، اپنے سے نظریاتی، فکری و نظری اختلاف رکھنے والوں کو عموماََ دبے لفظوں میں اور شیعوں کو خصوصاََ صاف لفظوں میں سمجھا رہے تھے کہ آپ کے شانوں پر آپ کے سر کا بوجھ بس چند دن کی بات ہے۔ بس ہمارے مفتی اور جلاد کے آنے کی دیر ہے اس روئے زمین پر ایک مخالف بھی نہیں بچے گا اور شیعوں کے بچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھئے:  کہکشاں میری خاک سے روشن نادیہ عنبر لودھی

لیکن تاریخ میں عباسیوں، محمود غزنوی، سلجوقیوں، ترک دلجتوں، مغل بادشاہ اورنگ زیب، افغان حاکم امیر عبدالرحمن، جنرل ضیاء جیسوں کی شیعہ نسل کشی سے بچ کر اپنا وجود برقرار رکھنے والے شیعوں کے خلاف اس بار بھی داعشی وحشت، امریکہ کی رعونت، اسرائیل کی سیاست اور عربوں کے پیٹرو ڈالرز کچھ کام نہیں آئے۔ وہ دارالقضاء میں بیٹھے قاضی اور جلاد اپنی چھریاں لے کر فضا میں ایسے تحلیل ہوئے کہ ڈھونڈے سے بھی نہیں مل  رہے۔

ٹھہرئیے میری بات ختم نہیں ہوئی۔

ان ملوک کے کاسہ لیس اور نظریاتی حامی اب بھی ہمارے ہاں موجود ہیں وہی ملوک یعنی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جو پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلا کر اب 500 ارب ڈالرز کی لاگت سے 26 ہزار 5 سو مربع کلو میٹر میں ایک شہر  اور بحیرہ احمر کے 50 جزیروں میں عیش گاہیں اور سیر گاہیں کھولنے جا رہے ہیں۔ حضور آپ تو اسلام کے محافظ ہیں۔ ان پیسوں سے 5 لاکھ مسجدیں اور 50 لاکھ مدرسے قائم کر کے آخرت کمائیے۔ دین کی خدمت کیجئیے اور اس سے ایک کروڑ لوگوں کو روزگار ملے گا۔

دوسری طرف رقہ اور موصل سے بھاگے ہوئے وہ ہارے ہوئے داعشی اب معصوموں کا قتل کریں گے جس کا سلسلہ عراق، افغانستان مصر اور اب پاکستان میں شروع ہو چکا ہے۔ (کیا 1985ء سے اب تک قتل ہونے والے 30 ہزار شیعہ کچھ کم تھے)۔ بی بی سی اور یو ٹیوب کے آرکائیوز میں اب بھی وہ ڈاکیومینٹری موجود ہے جس میں جب بی بی سی کا نمائندہ رقہ کے مضافات میں ایک دوکاندار سے پوچھتا ہے کہ وہ کون لوگ تھے جو یہاں سے گزرے تو وہ کہتا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے لوگ تھے۔ اس ٹرک کانوائے میں میں اپنا ٹرک کرائے پہ دینے والا ڈرائیور بتاتا ہے کہ کانوائے تین میل لمبا تھا اور انہیں صحرا کی طرف چھوڑا گیا شاید وہاں سے انہیں دوسرے لوگ لے کر گئے ہوں۔ لیکن ان پہ کسی نے کوئی بمباری نہیں کی نہ کوئی زمینی حملہ کیا گیا۔ پوچھنے پر یہ پتہ چلا کہ ان میں عرب، پاکستانی، چیچن، افغان بھی شامل ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں شیعوں پر ہونے والے حملوں کے قرائن یہ چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ یہ دہشت گرد داعشی شاید اپنے اپنے گھروں میں پہنچ گئے ہیں۔ اس لئے یہ صاف لگ رہا ہے کہ شیعہ نسل کشی کا میدان ازسر نو ترتیب پا رہا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس