سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں پر کہیں کہیں بچ رہنے والے زرد پتے ان تیز ہواؤں کی زد میں گرتے جھڑتے اور اڑتے پھر رہے تھے ۔ دسمبر کی یکم سے آج چار تاریخ ہوگئی تھی سہیل کی آواز سنے۔ گھر کا فون خراب پڑا تھا۔ ضروری بات کرنے کے لیے بھی قریبی مارکیٹ میں صوفی بک کارنر جانا پڑتا۔ کتابیں، سٹیشنری ،فوٹو سٹیٹ ،فیکس مشین اور پی سی او سب کچھ ایک چھوٹی سی لکڑی کے کیبن میں مل جاتا ۔ دکان کے آخری کونے میں لکڑی کی پارٹیشن میں خاص پردے کا انتظام تھا جہاں سے فون کرنے والا باقی گاہکوں کو نظر نہیں آتا تھا ۔ معصومہ کو یہ کونفیشن باکس لگتا اور صوفی چاچا باکس کے اندر گم صم کھڑے کلرجی مین ۔کسی گہرے کنوئیں کی طرح سب کے راز چھپائے ۔
اس دن کتنی مشکل سے کتنے بہانےبنانے کے بعد ماں جی سے اجازت ملی تھی۔ صوفی چاچا ابھی دکان کھول ہی رہے تھے جب وہ پہنچ گئی ۔ ٹرنک کال ملنے اور سہیل کی آواز سنائی دینے تک دل تیز تیز دھڑکتا رہا۔ یخ ٹھنڈےہاتھ سویٹر کی جیب میں کپکپاتے رہے ۔ پھر بس فون ریسیور کےادھر سے سہیل کی "ہممم ، اچھا ، واہ ، گڈ ” اور ادھر سے تنہائی کا تذکرہ ،رات میں گونجتی ہوا کی سیٹیوں میں کسی کی پکار ،برف باری کا خاص دل کی تاروں کو چھیڑتا ردھم اور آتشدان میں دھیمے دھیمے سلگتے کوئلے کی سرسراہٹ جیسے کسی کے قدموں کی آہٹ، جون ڈن کی فاربڈنگ مورننگ اور پھر معصومہ کی گنگناہٹ ” آئی جسٹ کال ٹو سے یو آئی لو یو ” سنائی دے رہی تھی ۔ ٹرنک کال وقت پورا ہونے پر کٹ گئی اور یہاں سے دوبارہ ملائی گئی ہیلو کے بعد اب سہیل بول رہا تھا۔
” یار کبھی تو خیال کرلیا کرو میں ہاں ہوں کررہا تھا تم بات سمجھتی نہیں بولے جاتی ہو ۔ یار دفتر بیٹھا ہوں روز والی وہی کہانی شروع ہوجاتی ہے تمہاری ، میرے سامنے شہر کی سب سے امیر اور حسین عورت بیٹھی تھی۔ کتنا بڑا اکاؤنٹ ہے اس کا ۔ تم نے گانا بھی شروع کردیا ۔ شکر ہے کال کٹ گئی، آج تو نوکری چھٹنے لگی تھی تمہاری وجہ سے ۔تم وہاں بیٹھی ہو سکون سے تمہیں کراچی کی مشکلوں کا۔۔۔
! ہیلو ! ہیلو ! ہیلو ”
ایک منٹ باقی تھا لیکن سننے کو کچھ نہیں بچا تھا ۔کنفیشن باکس کا کلرجی مین ایکسچینج سے گزرتی سب آوازیں اپنے سینے کے گہرے کنوئیں میں دفن کرتا گیا ۔اور اس دن کے بعد صوفی بک کارنر سے سہیل کے لئے کبھی ٹرنک کال بک نہیں کرائی گئی ۔
آج بھی چار دسمبر ہے کتنے سال گزر گئے شاید تیس ! نہیں انتیس ۔ آج امریکہ میں شدید برفانی طوفان ہے، اسکول بند کردیے گئے ہیں۔ کل رات سے کتنی ہی ریاستیں طوفان کی زد میں ہیں۔ ٹریفک درہم برہم ہے ۔شاید پانچ کروڑ سے زیادہ لوگ تو اوریگون میں ہی ویدر الرٹ پر ہیں ۔ چار ہزار پروازیں منسوخ کردی گئی ہیں ۔نیویارک پاکستانی سفارت خانے میں معصومہ کے دفتر کی شیشے کی دیوار سے باہر دور تک صرف برف ہی برف اڑتی نظر آرہی ہے ۔ ہر طرف طوفان ہی طوفان کی خبریں ہیں ۔ ٹیلی ویژن بند کردینے کے بعد کمرے میں سناٹا ہے اور اس سناٹے کو توڑتی فون ریکارڈر پر بار بار دہرائی جاتی سہیل کی آواز
” معصومہ پلیز تم صرف ایک فون کال کردو میں بہت مصیبت میں پھنسا ہوں بڑی مشکل سے تمہارا نمبر ڈھونڈا ہے پلیز ۔ پلیز تمہاری ایک کال سے مجھے سیٹ مل جائے گی ۔میں دو تین دن تک امریکہ نہ پہنچا تو نوکری چھٹ جائے گی ! ہیلو! ہیلو! معصومہ ”
کتنی دفعہ ریکارڈنگ سننے کے بعد دفتر کی ایکسچینج سے سہیل کا نمبر ملوایا
” سہیل صاحب اس وقت آپ کو سیٹ نہیں مل سکتی آپ صبر کیجئے اور بار بار کال کرکے پریشان نہ کریں آپ تو آرام سے گھر میں بیٹھے ہیں آپ کو کیا پتہ ہمارے عہدوں کی مشکلات کا !
اسے کہنا تو اور بھی بہت کچھ تھا مگر لائن کاٹ دی۔ انتیس سال پہلے کے ان تضحیک بھرے الفاظ اور لہجے کا بدلہ لینا ممکن ہی نہیں تھا ۔اسے آج بھی صوفی چاچا کی آنکھوں اور چہرے کے تاثرات یاد تھے اور ان کا کہا جملہ
” معصومہ پتری یہ تیرے قابل نہیں ٹائم ضائع نہ کر جا پتری گھر جا اپنی پڑھائی کر ”
بس اب ایک خواہش ناتمام رہ گئی تھی اس کال کی ریکارڈنگ صوفی چاچا کو سنانی تھی ۔
کاش وہ زندہ ہوتے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn