Qalamkar Website Header Image

ڈینگیں

یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے ۔ میں بھی لاپرواہی سے بٹوہ میں ہاتھ ڈالتی اور مٹھی بھر کے نوٹ نکال لیتی تھی ۔ اب تو  جی کڑا کرکے  بٹوہ میں سلیقے سے چند نوٹ گن کر  ترتیب وار لگانے کے بعد ریز گاری گلک میں ڈال کر  سوشل میڈیا پر پہاڑوں کی تازہ ترین تصاویر دیکھ کر سکون سے بیٹھ جاتی ہوں  ۔ اس قومی قرقی اور دیوالیہ پٹ جانے کے دور میں زاہدوں اور عابدوں کی دوڑ بھی  مسجد تک ہی رہ گئی ہے   اور یہ خانہ خدا محلہ کی مسجد ہے ۔(کہیں کوئی سعودیہ نہ سمجھ لے) جہاں خالی جیب کو بھی جگہ ملتی ہے بھری تجوریوں والوں کے ساتھ ۔
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی تو ترے حضور میں آگئے  ۔

خیر تو ہوا یہ کہ تین لگاتار چھٹیاں آگئیں تھیں  اور ساتھ ہی گاوں سے ایک بوری مکئی کے تازہ بتازہ بھٹوں یا سٹّوں یا چھلیوں کی ۔ اب دل ناداں مچل اٹھا یہ سب بھٹے یا سٹّے یا چھلیاں نتھیا گلی کے بندروں کی نذر کرنے ۔
موٹر وے پر منٹوں میں میلوں کا سفر طے کرتے اور ایکسپریس وے  سے سیدھے لارنس کالج گھوڑا گلی کی بغلی گلی سے گزرتے اندھیرا پھیلتے پھیلتے نتھیا گلی جاپہنچے ۔  بندروں کے پاس چونکہ سیل فون کی سہولت میسر نہیں تو وہ ناچیز کا استقبال اور عشائیہ پر انتظار  کرنے کے بجائے سر شام ہی سوچکے تھے ۔ اگلے دن نتھیا گلی سے چھانگلہ گلی تک سب بندروں کو سٹّے یا بھٹے یا چھلیاں پیش کرتے کرتے شام ڈھل گئی ۔ بندروں کی خاطر تواضع کے بہانے   عثمانیہ مال روڈ  مری کاسپیشل سوپ بھی مل گیا ۔

کربھلا سو ہو بھلا ۔
 مال روڈ پر لوگ ہی لوگ تھے ہر رنگ نسل کے اور پاکستانی تھے سو پان کی پیک ،آئس کریم بسکٹوں کے ریپر اور ہر طرح کا کچرا قومی فریضے کی طرح اپنی نشانی کے طور پر پھیلاتے جارہے تھے ۔ دراصل ہم اپنی territory  mark (زیر قبضہ علاقہ کی نشاندہی ) کرتے جاتے ہیں ۔

اچھا اب ایک چاند گاڑی والا پیچھے پیچھے چلا آرہاتھا ۔ سوچا بچپن کی یاد ہی تازہ کرلی جائے ۔ خوب بھاؤ تاؤ کرکے سو روپے میں سالم چاند گاڑی کرایہ پر لے لی اور کون آئس کریم خرید گاڑی میں سوار ہو ناچیز چاند کی سیر کو روانہ ہوگئی ۔ مری مال روڈ پرکچھ دور تک سڑک سیدھی ہے اور پھر چڑھائی شروع ہوتی ہے ۔ دبلا پتلا پھرتیلا لڑکا میاں صاحب کا انٹرویو کرتا جارہا تھا   ۔  کچھ ہی چلے تو  کسی دکان دار نے پنجابی میں پوچھا
 ” کنی دیر اچ آنا اے سامان بھیجنا سی ؟لڑکے نے جواب دیا
 ” دس منٹ ! ! !  ایہہ بڈھی چھڈن جاریا ہاں ”

یہ بھی پڑھئے:  شہری دفاع کابین الاقوامی دن - اختر سردار چودھری

لیجیے چڑھائی شروع ہوئی، چاند گاڑی کی رفتار میں کچھ کمی ہوئی ساتھ ساتھ چاند گاڑی دھکیلتے لڑکے کے سوالات کی رفتار میں بھی اور پھر یوں جیسے چاند گاڑی منوں ٹنوں وزنی ہوتی چلی گئی ۔
 یہاں ایک لوک کہانی یاد آگئی شاید ہمارے علاقوں کے ہر شخص نے اپنے نانا یا دادا کے حوالے سے سنی ہو ۔ حضرت بزرگوار  کہیں کام وام سے گئے ہوں گے شام پڑے جنگل سے گزررہے تھے جس کے دوسرے کنارے  پرگاؤں تھا

اچانک ایک عورت کے رونے کی آواز پر رک گئے ۔ کیا دیکھتے ہیں گھنے درندوں سے بھرے جنگل میں ایک برقع پوش بی بی درخت سے چپکی خوف زدہ کھڑی ہیں بیچاری   گھر کا  راستہ بھول گئی ہیں  اب  موصوف نے ” آجا نی بیہ جا سائیکل تے ” قسم کا کچھ گنگنا کر بی بی کو گھر پہنچانے کے لیے  سائیکل پر سوار کرلیا ۔ بتائیے  ذرا تو سوچتے کہ ان محترمہ میں کچھ تو گن رہے ہوں گے جو یوں تن تنہا ماری ماری پھر رہی ہیں ۔نڈر بزرگوار نے یہ بیڑا اٹھایا اور چل دیئے۔

ڈھلتا سورج ، تنہا جنگل اور برقع پوش حسینہ کا ساتھ نہایت موج میں سائیکل چلاتے جارہے تھے پھر جیسے سائیکل کے پیڈل بھاری ہونے لگے اور  پیچھے بیٹھا پھول سا وزن بڑھنے لگا ساتھ ہی عجیب سڑاند سی بھی آنے لگی ۔ کچھ دور تک جاکر تو سائیکل چلانا جیسے ناممکن سا لگنے لگا ذرا سا مڑکر دیکھا تو برقع پوش بی بی کی جگہ بھیانک چہرہ والی ڈائن جس کا دھڑ بیل جیسا اور لمبی بکری جیسی ٹانگیں پیچھے پیچھے گھسٹ رہی ہیں ۔بہت سے ڈائن کے چیلے چانٹے بھی ناخن تیز کرتے دانت کٹکٹاتے چلے آرہے ہیں ۔ جنگل اور گاؤں کا سرحدی نالہ لبالب پانی سے بھرا سامنے ہی تھا بزرگوار نے کلمہ پڑھا سائیکل سے چھلانگ ماری ایک جست میں نالہ عبور کیا  پیچھے مڑ کر دیکھا تو ڈائن  کھڑی دانت نکوستی دھاڑ رہی تھی

 ” کب سے ترا انتظار تھا ،اس دفعہ تو بچ گیا  اگلی دفعہ نہیں چھوڑوں گی ۔ ”
اب یہ راوی کو بھی نہیں پتہ ہوتا تھا کہ کم ازکم سو سال پہلے نانا جی یا دادا جی نے اتنی قیمتی سائیکل کیسے خریدی تھی؟ اور پھر  واپس کیسے حاصل کی ہوگی؟  اور  بہت سے ناگفتنی سوالات بھی اٹھتے کچے ذہنوں   میں کہ کچھ تو کیا ہوگا بزرگوار نے جو ایسی زٹیل ڈائن پیچھے لگی  ۔ لیکن معصوم  راوی بھی پاکستانی قوم کی طرح وعدوں اور دعوؤں پر اندھا دھند یقین کرنے والے ہوں گے جو بزرگوار کی بے جا بہادری کی داستان سینہ بہ سینہ گزٹ کی طرح پھیلاتے جارہے ہیں ۔ ویسے میدان چھوڑ کر بھاگ جانے پیٹھ دکھا جانے میں بہادری تو کہیں نہ ہوئی نا۔

یہ بھی پڑھئے:  قلم کار: پہلے سال کا سفر مکمل ہوا - حیدر جاوید سید

 خیر  جی پی او گزرا ساتھ کی گلی کی پہاڑی چڑھائی شروع ہوئی اور گاڑی بان کی سانس دھونکنی کی طرح چلنی شروع ہوگئی۔ میاں صاحب نے ہمت کرکے ساتھ دھکا لگانا شروع کیا ۔ اتنی مشکل میں دیکھ کر چند ایک راہ گیر یا سیاح بھی مدد کو آگئے اور بوجھ تھا پہاڑ سا کہ کسی طرح سرکتا نہ تھا آخر بیچارے لڑکے کا حوصلہ جواب دے گیا اور وہ ڈھ گیا بہت مشکل سے بولا ” پچاس روپیہ دے دو اور بڈھی اتار لو ”
  رہائش گاہ تک چند قدم رہ گئے تھے۔ ناچیز نے  سوچا

” بس کر بی بی اب کیا بچے کی جان لے گی ”
۔۔دو سو روپیہ نڈھال گاڑی بان  کو پیش کیا اور آئندہ کے لیے سمجھایاکہ میاں صاحبزادے آئندہ  تجربہ کیے بغیر اونچی اونچی ڈینگیں مت مارنا اور اس نے وہیں فرش رسید ہوئے وعدہ کیا کہ آنے والی نسلوں کو بھی یہ وصیت کرکے جائے گا ۔

اب یوں ہے کہ سوچے سمجھے بغیر ہی بلند بانگ دعوے کر کر کے من حیث القوم سڑاندی ڈائن پیچھے لگالی ہم نے یا مجھ ناچیز جیسی ” بڈھی ” ڈھونے کی حامی بھرلی ہے  اور اب اس صورتحال سے بچ نکلنا محال ہورہا ہے ۔
جو سمندر کبھی نہ پار کیا
اس کے مدوجزر کو کیا جانیں

حالیہ بلاگ پوسٹس