Qalamkar Website Header Image
شازیہ مفتی، قلم کار کی افسانہ نگار اور کالم نگار

کیا سارے ہیلمٹ فروخت ہوگئے؟

انتہائی جوش وخروش سے ٹریفک پولیس نے مہم شروع کی ۔ موٹر سائیکل سوار کھوپڑی پر کس کے کنٹوپ یعنی ہیلمٹ چڑھائیں ۔
ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چالان
ہیلمٹ کے بغیر پکڑے جانے والے موٹر سائیکل مالکان دوہزار روپے تک بھرتے اور حکومت کے خلاف زہر اگلتے پھرے ۔ نصف کٹے ہوئے تربوز کی سی شکل کے ہیلمٹ کے نام پر تہمت کنٹوپ ہاتھ ریڑھیوں پر بکتے دیکھے گئے ۔
پھر موٹر سائیکل پر ڈرائیور کے پیچھے بیٹھی سواری پر بھی پابندی لگادی گئ ہیلمٹ کی ۔ نقاب پو اور ہیئرسٹائل پر وقت اور پیسہ لگانے والی ہر دو طرح کی خواتین نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا بہت سمجھانے کی کوشش کی گئ بھئ آپ کی کھوپڑی پاش پاش ہونے سے بچانے کے لیے یہ حفاظتی تدبیر ہے ۔نہ مانیں ۔ کہتی ہیں بی بیاں
” مر جائیں گی یہ بیہودہ چیز سر پر نہ رکھیں گی "
ایک خاتون نے تو یہاں تک کہا کہ چار بچے ساتھ بٹھاکر جانا ہو تو کیا سب کے لیے ہیلمٹ ضروری ہیں ۔ اب ان کو کیا کہا جائے جو پہلے ہی بہبود آبادی محکمہ کی خلاف ورزی کررہے ہیں ۔
خیر مقدم بھی کیا گیا ایک مستحسن اقدام کے طور پر ۔
لیکن پھر شاید ابی نندن کے ” آنے اور چائے سُڑک کے جانے ” یا ” عورت مارچ ” نے توجہ ہٹادی اس مہم کی طرف سے ۔ یا شاید جتنے ہیلمٹ درآمد کئے گئے تھے بک گئے، اس لیے اب سکون ہے ۔سڑکوں پر جان ہتھیلی پر لیے (اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی ) لونڈے لپاڑے ننگے سر بلکہ ننگ انسانیت وآدمیت واسلا ف بنے درانہ گھوم رہے ہیں ۔
ٹریفک وارڈنز کی ناک کے نیچے سے زناٹے سے گزر رہے ہیں اور ان کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔
شاید ہیلمٹ کا اگلا سٹاک آنے پر پھر عوام کی کھوپڑیاں اہم ہوجائیں ۔

یہ بھی پڑھئے:  کہانی میرے شہر کی - فاطمہ عاطف

اور ہیئرسٹائل پر وقت اور پیسہ لگانے والی ہر دو طرح کی خواتین نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا بہت سمجھانے کی کوشش کی گئ بھئ آپ کی کھوپڑی پاش پاش ہونے سے بچانے کے لیے یہ حفاظتی تدبیر ہے ۔نہ مانیں ۔ کہتی ہیں بی بیاں
” مر جائیں گی یہ بیہودہ چیز سر پر نہ رکھیں گی "
ایک خاتون نے تو یہاں تک کہا کہ چار بچے ساتھ بٹھا کر جانا ہو تو کیا سب کے لیے ہیلمٹ ضروری ہیں ۔ اب ان کو کیا کہا جائے جو پہلے ہی بہبود آبادی محکمہ کی خلاف ورزی کررہے ہیں ۔
خیر مقدم بھی کیا گیا ایک مستحسن اقدام کے طور پر ۔
لیکن پھر شاید ابی نندن کے ” آنے اور چائے سُڑک کے جانے ” یا ” عورت مارچ ” نے توجہ ہٹادی اس مہم کی طرف سے ۔ یا شاید جتنے ہیلمٹ درآمد کئے گئے تھے بک گئے، اس لیے اب سکون ہے ۔سڑکوں پر جان ہتھیلی پر لیے (اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی ) لونڈے لپاڑے ننگے سر بلکہ ننگ انسانیت وآدمیت واسلا ف بنے درانہ گھوم رہے ہیں ۔
ٹریفک وارڈنز کی ناک کے نیچے سے زناٹے سے گزر رہے ہیں اور ان کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔
شاید ہیلمٹ کا اگلا سٹاک آنے پر پھر عوام کی کھوپڑیاں اہم ہوجائیں ۔

Views All Time
Views All Time
627
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

ڈاکٹر ظہیر خان - قلم کار کے مستقل لکھاری

موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس: تباہی دہرانا بند کریں

وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول

مزید پڑھیں »