ایک غلط فیصلہ، ایک غلط اٹھایا جانے والا قدم اور ایک غلط موڑ منزل سے دور لے جاتے ہیں بلکہ راستے کھوجاتے ہیں اور پھر منزلیں بھی گم جاتی ہیں ۔اسی طرح زبان سے پھسل جانے والے الفاظ ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچادیتے ہیں جن کی کوئی معافی نہیں ۔ زبان کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا حدیث نبوی ؐ ہے ” کم بولو ، کم کھاو اور اپنے گھر میں رہو ” اور ” تم مجھے زبان کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں”
جو شخص جتنا زود گو ہوگا اتنی ہی زیادہ غلطیاں کرے گا اور پھر اچکنے والے منہ سے کہے الفاظ اچک لیں گے ۔ بہت سے غیر محتاط بیان قوموں کی تاریخ میں کئی تکلیف دہ ابواب کا اضافہ کرگئے ۔ پاکستان کا اکہتر میں دولخت ہونا ، گو کہ اس کی وجوہات گنی جائیں تو لاتعداد وجوہات ہیں ، لیکن ” ادِھر ہم ا ُدھر تم ” اطہر حمید کی امروز میں لگائی گئی سرخی تھی لیکن اس سانحے کا بوجھ بھٹو صاحب مرحوم پر ڈال گیا پھر ” سیاچن پر تو گھاس بھی نہیں اگتی ” ضیا الحق کی زبان کی لغزش ۔
ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کا ایک متنازعہ بیان کس طرح ان کے گلے کی چھچھوندر بن گیا۔اپنے کپتان صاحب تو چیمپئن ہیں زبان پھسلانے کے ۔ عام لوگ غیر ذمہ دارانہ گفتگو کے عادی ہوتے ہیں ۔ حساس اور زود رنج افراد کئی دفعہ( تجربے کی بات ہے ) کسی احمق کی کہی بے سوچی سمجھی احمقانہ بات پر اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرگزرتے ہیں جو ناقابل تلافی نقصان اور عمر بھر کے لیے پچھتاوے بن جاتے ہیں ۔کئی دفعہ لوگ بات برائے بات کررہے ہوتے ہیں اور اس کا ایک بتنگڑ بن جاتا ہے خاندان چھوٹ جاتے ہیں ۔سیاست دانوں اور اہم اداروں کے چلانے والوں کی پوری تربیت ہوتی ہے کہاں کیا بولنا اور کتنا بولنا ہے ۔
ہماری سیاست کا ایک نہایت مکروہ اور بدصورت رویہ بن گیا ہے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے میں بازی لے جانا ۔ یہ مہذب معاشروں میں قابل قبول نہیں ۔ اس وقت بھارت اور پاکستان جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں یہ فضول بیان بازی میں پڑنے کی گھڑی نہیں ہوش کے ناخن لینے کا موقع ہے ۔کپتان صاحب نے جس قدر تدبر کا ثبوت دیا وہ لائق تحسین ہے ۔ اور واقعی اس مشکل میں "قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی "۔ہم اس پاک وطن کے باسی ایک ہیں۔کسی ہم وطن کی تضحیک کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی ۔
فیاض الحسن چوہان بہت دن سے غیرذمہ دارانہ بیانات سے محظوظ کررہے تھے لیکن آخر ” میں میں ” کرتے کب تک خیر مناتے۔
ا مید ہے کہ باقی وزرا بلکہ عام لوگ بھی اب بولتے ہوئے ترازو کا استعمال ضرور کریں گے ۔ اور ان کی زبان کی پھسلن کی زد میں آنے سے ہم بیچارے لوگ محفوظ رہیں گے ۔ اگر بولنے سے پہلے سوچنے کی عادت ہم سبھی اپنا لیں تو کیا ہی اچھا ہو۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn