Qalamkar Website Header Image
شازیہ مفتی، قلم کار کی افسانہ نگار اور کالم نگار

​جوڑا

​امی جان کی الماری جو کھولی تو اڑڑڑدھم کر کے برانڈڈ کپڑوں کے خوب صورت ڈبے ناچیز کے سر پر اولوں کی طرح برس گئے حالانکہ سر بھی نہیں منڈایا تھا ۔ چوٹ ووٹ تو نہ آئی لیکن امی جان کی گود میں سر رکھ کر بہت دیر لاڈ اٹھوائے۔ بتائیے پتھر جیسے موٹے دماغ کا ان پھول سے کاغذ اور گتے کے ڈبوں سے بھلا کیا بگڑنا۔ ہم ایسے لکڑ مارکہ ڈھیٹ لوگ تو نجانے دل و دماغ پر کیسی کیسی چوٹیں سہہ کر وہیں ڈٹے ہیں۔ سنا ہے عقیقہ کے دن نہلاتے ہوئے پیتل کا آفتابہ آیا کہ ہاتھ سے پھسل کر ناچیز کی تازہ تازہ منڈی ہوئی کھوپڑی پر جا لگا تھا، بگاڑ تو کچھ نہ پایا، لیکن ساری عمر کے لیے ایک کمزوری برادران یوسف نما بھائی بہنوں کے ہاتھ آگئی ۔ جہاں کہیں چار ایک دانشور جمع ہوئے اور ناچیز نے کوئی فلسفہ بگھارنا چاہا فورا خاموش کرا دیا گیا کہہ کر کے ” ارے ان کے تو بچپن میں دماغ پر لوٹا گر گیا تھا کچھ سنک گئی ہیں "خیر امی جان کے خزانے کو واپس ٹھکانے لگانا شروع کیا ۔ کیا کیا ڈیزائن اور کیسا کیسا پیارا کپڑا کہ ہر جوڑے پہ دم نکلے لیکن چپکی سی واپس رکھتی رہی یہ سب ان کی پیاریوں اور پیاروں نے مدرز ڈے پر تحفے دیے تھے ۔
بہت دیر صبر اور برداشت سے کام لیا لیکن نفس کم بخت کے ہاتھوں آخر مجبور ہو ہی گئی ۔ ایک نہایت نفیس دھانی رنگ کا باریک شیفون کا جوڑا جیسے ہاتھوں سے چپک ہی گیا۔ اور ماں پیاری ماں نے آنکھوں سے ٹپکتا شوق کا عالم بھانپ کر کہہ دیا ” اے ہے اس رنگ سے تو تنگ اگئی ہوں یوں کرو تم سلوالو ” واہ بھئی عیش ہو گئے جوڑا لپیٹا ، سمیٹا اور پچھلے دروازے سے گاڑی میں سمگل کردیا ۔ دل و دماغ پر دھانی رنگا شیفون ہی چھایا رہا چاروں طرف ۔ اگلی صبح فجر قضا ہوئی ۔ دفتر پہنچے نئی پارٹی سے میٹنگ تھی جو بالآخر ناکام ہوئی ۔ میاں صاحب کو وہیں حالت ملال میں چھوڑ کر گھر لوٹی ۔ موسی سر پر پٹی باندھے گھسٹ گھسٹ کر گھر کو مزید گندہ کرنے کی کوشش کررہی تھی خبر ملی کہ خانساماں جی تیز چھری سے سبزی کترنے کی کوشش میں انگلی کی پور کتر بیٹھے اور پٹی کرانے شہر کے آخری کونے میں کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں کیونکہ بقول ان کے سارا کام ہی اعتقاد کا ہے اور ان کو صرف انہی ڈاکٹر صاحب پر یقین ہے۔
لیجئے، دودھ ابالنے اور دو ہنڈیاں جلانے کے بعد توبہ کرکے باورچی خانہ سے خودساختہ جلاوطنی اختیار کی۔ بچوں کو اسکول سے امی جان کے پاس پہنچانے کی ہدایت کرکے دو گھڑی کمر سیدھی کرنےچلی تو یاد آیا درزی کو بلا لوں فون کیا تو فورا ہی دس منٹ میں آ کر کپڑے سلنے کو لے گیا ۔ چلو کوئی تو کام ہوا ۔ موسی کو کام ختم کرنے کی ہدایت دے کر اور اس کے منہ کے بگڑے زاویے نظر انداز کرتے ہوئے خواب خرگوش میں کھوگئی ۔ بجلی نہی آرہی تھی لیکن UPS سے پنکھا چل رہا تھا ۔یوں لگا برفانی ریچھ ہوں اور چھ مہینے سے سو رہی ہوں بے چینی سے آنکھ کھلی پنکھا بند پردے گرے تھے اس لیے ملگجاسا اندھیرا موسی کے خراٹے ایک تسلسل سےگونج رہے تھے وہ بھی برفانی ریچھنی بنی شش ماہی نیند پوری کررہی تھی پانچ سات آوازوں سے محترمہ ہوشیار ہوئیں اب راز افشا کیا کہ صبح سے بتی بند ہے اور پانی بھی لیکن اس نے اپنا کام کر لیا ہے ۔فورا فون کھولا وہاں اطلاع منتظر تھی کہ ناگہانی وجوہات کی بنا پر تربیلا ڈیم کام نہی کررہا اور غیر معینہ مدت کے لیے بجلی کی ترسیل بند ہے ۔
لجیئے دیکھتے ہی دیکھتے 4G غائب، وائی فائی تو پہلے ہی بند ہوچکا تھا ۔ میاں صاحب کو فون کیا تو انہوں نے مزید ہولایا ۔ ائرپورٹ بند ہوچکے ہیں بجلی نہ ہونے سے کمپیوٹر کام نہیں کر رہے اور ہم سب پتھر کے زمانے میں واپس جانے والے ہیں مزید خوفزدہ کرنا تھا کہ ان کا فون فون بند ہوگیا ۔ سامنے میز پر ایک بڑا سا تھیلا نظر آیا ماسی نے بتایا درزی بےچارہ کپڑے لے کر جونہی گھر سے نکلا کوئی گاڑی ٹکر مارگئی اس کی مضروبہ موٹر سائیکل گیراج میں کھڑی ہے اور کپڑے سامنے دھرے ہیں آس پاس کے لوگ ہسپتال لے گئے ہیں۔ کیا یہ کوئی نحوست تھی یا بد دعا بچپن سے بار بار کی جانے والی دعا ذہن میں گھوم گئی.
” میرے رب کریم بچا مجھے عافیتوں اور نعمتوں کے چھن جانے سے ” پھر اچانک یوں لگا تھیلے میں سے دھانی جوڑا چھلاوے کی طرح نکلا اور روپ بدل بدل کر دکھانے لگا . ضمیر نے کہا بی بی چل اٹھ یہ واپس کر سب گڑ بڑ گھوٹالا اسی سبز قدم کی بدولت ہے ، تھیلا اٹھایا اور امی جان کا رخ کیا ۔ وہاں پنکھے چل رہے تھے میز پر شام کی چائے لوازمات سمیت سجی تھی اور چاروں طرف جیسے برکتیں اور رحمتیں برس رہی ہوں ۔ دھانی جوڑا واپس اس کے بھائی بندوں کے ساتھ رکھا امی جان کو بہت مشکل سے قائل کیا کہ بالکل ایسا کل ہی میاں صاحب لے آئے تھے ۔ سانس درست کیا اور سوکھے گلے کو چائے سے تر کیا ۔ فون کی گھنٹی بجی ۔ دوسری طرف خوش خبری تھی کہ صبح کے بھولے کلائنٹ شام کو لوٹ ائے ہیں ۔
پھر ایک جھماکے سے بجلی واپس آ گئی ۔ خانساماں جی کا فون آیا بی بی کیا پکاؤں پٹی کرا کے واپس آ گیا ہوں اور ساتھ ہی اطلاع کہ درزی آیا تھا موٹر سائیکل لے گیا بس اوپری اوپری چوٹیں آئ تھیں۔ اللہ اللہ سوچ رہی ہوں کیا سارا قصور اس دھانی جوڑے کا تھا۔ اچھا ناچیز کے لوٹا گرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اسے کرایے پر چلا نا چاہیے ۔ دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے، کسی خود سے زیادہ کامیاب ہوتے رشتہ دار کی بربادی کے لیے ، یونہی بس حسد کی آگ بجھانے کے لیے کسی کے گھر رکھ آؤں اور تماشا دیکھوں ۔ ہاں ایک کام نہیں ہو سکے گا محبوب آپ کے قدموں میں اور ویسے اس کی اب ضرورت بھی نہیں یہ تو فری انٹرنیٹ پیکج اور فری ویڈیو کال سے پہلے ہی باآسانی ہورہے ہیں۔ ۔
Views All Time
Views All Time
436
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

ڈاکٹر ظہیر خان - قلم کار کے مستقل لکھاری

موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس: تباہی دہرانا بند کریں

وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول

مزید پڑھیں »