Qalamkar Website Header Image

اپنے حصے کا چراغ جلاتے جانا | شازیہ مفتی

” باجی جی سلام ” کی آواز سے بلکہ اس خاص ٹیون سےفہمیدہ سید چونک گئیں جو نیویارک سے کراچی تک کے ٹرانزٹ فلائٹ کے دکھ سہتی نڈھال ہوئی جارہی تھیں. ہر ہر قدم پر دل میں اسلام کے سچا مذہب ہونے کی گواہی دیتی کہ محرم کے بغیر سفر نہ کرو بیبیو آج کوئی ساتھ ہوتا تو کتنی آسانی ہوتی. کارٹن ،چھوٹے بڑے اٹیچی سب سامان لے کرکسٹم کے پل صراط سے تو تنہا ہی گذرنا تھا۔ سوچ سوچ کر دل بیٹھا جارہا تھا ۔ایسے میں یہ تسلیم وآداب ۔ ارے بھئ یہ کون ہے ، ادھر ادھر سر گھماکے دیکھا تو کسٹم یونیفارم میں ایک سمارٹ سا لڑکا کھڑامسکرا رہا تھا ۔ آنکھیں سکوڑ کر ،پھر پوری کھول کر ہر طرح غور سے دیکھنے پر بھی نہ پہچان سکی ,” وعلکم السلام ", باجی جی ، ” آپ بیٹھیں ادھر میرے دفتر میں میں آپ کا سامان نکلواتا ہوں ” اوراس سمارٹ کسٹم آفیسر نے کہا . "باجی جی ” اس لفظ کے جادو کا شکار فہمیدہ سید ایک موءکل کی طرح چل پڑیں ۔ پھر تو سب کچھ آسان ہوتا چلا گیا ۔ چلتے چلتے اس آفیسر نے پھر باجی جی سلام کے ساتھ اپنا کارڈ بھی دیا ۔ جیٹ لیگ سے نکلنے میں کئی دن لگ گئے. زندگی واپس اپنے معمول پر آئی. پرس میں کچھ ڈھونڈتے ہوئے ایک کارڈ ہاتھ میں آگیا ۔ اسی دن والے کسٹم آفیسر کا کارڈ ۔نام لکھا تھا ” اشرف سلیم ” ۔ نام بھی بہت جانا پہچانا ۔فہمیدہ سید خاصی الجھن کا شکار ہوچکی تھیں ۔ ” پوچھ لیا جائے تو کیا حرج ہے ” نمبر ملانے اور فون کی گھنٹی بجنے فون اٹھانے اور ان کا نام سن کر ” باجی جی سلام ” سننے تک بہت الجھنیں تھیں جن کا حل اشر ف سلیم کے پاس تھا ۔ ” ہاں بھئ وعلیکم السلام کون ہو تم ” ? فہمیدہ سید اس سے زیادہ تجسس برداشت نہیں کرپارہی تھیں سو چھوٹتے ہی سوال داغا۔ ” میں اچھو باجی جی ” جواب پھر مبہم. ارے بھئ اچھو بھی ہزاروں ہوتے ہیں کن سا اچھو ؟ فہمیدہ سید پھر گومگو کا شکار ہوگئیں ” آپ نے نہیں پہچانا ” اشرف سلیم کی مایوسی سے شدید شرمندہ تھیں لیکن ماننا تو تھاکہ ایسا ہی ہے مسٹر اچھو اشرف سلیم ۔ ” اچھا باجی جی مکھاں مائی یاد ہے آپ کو ” اشرف نے استفسار کیا . فہمیدہ سید کی جیسے چوٹ لگ کر کهوئی یاد داشت فلمی انداز میں لوٹ آئی ۔ ” اچھو ۔ مکھاں اور سلیما کھبڑ” سب یاد آگئے۔
بہت پرانی بات شاید بیس سال پہلے کی جیسے فلم چل گئی یادوں کی ۔ ایک آٹھ نو سال کا زرد رو لڑکا اچھو ، مکھاں مائی انتہائی سادہ لوح عورت جس کو سو روپے اور دس روپے کا فرق بھی پتہ نہیں تھا ۔مہینے بھر کی جان توڑ محنت کے بعد حاصل ہونے والے چند نوٹ بغیر دیکھے شوہر کو دے دینے والی اور شوہر سلیما کھبڑ ہیپا ٹائٹس کا مریض بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا نحیف ونزار شخص ۔اس دن شاید مہماں آرہے تھے. کوئی فنکشن تھا. گھر میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے سلیما کھبڑ اور مکھاں مائی بیٹے اچھو کو بھی ساتھ لے آئے تھے ۔ فہمیدہ سید اور اماں جان کھانے والے کمرے میں برتنوں کی سیاست کررہی تھیں جب اچھو نے آکر اماں جان کو بازو سے پکڑ کر ہلایا ۔اس گستاخی پر سیخ پا اماں جان ابھی مجرم کو سزا دینے پر غور کررہی تھیں کہ اچھو میا ں ہکلاےء ” ررررگڑ ڑڑڑ دی ” کچھ سمجھ نا آیا ” مم م مم مم ررروووڑڑ دی ” پھر منمنایا ” ارے کم بخت کیا کہہ رہا ہے ” اماں جان کے سوال کا پھر وہی جواب تھا ” ررررگڑڑڑ دی ۔ مممممررررووورڑڑڑ دی ” چھوٹے ماموں ہر ایسے موقع پر فرشتہ بن کر آجاتے تھے .اس روز بھی فرشتے نے زرد رو روتے ہوئے اچھو سے پیار سے پوچھا ” کیا کیا بیٹا ” کچھ حوصلہ پاکر پھر اچھو نے انکشاف کیا ” چچچچادددر ررررررگڑڑڑ دی ” اماں جان سرپکڑ کر بیٹھ گئیں ” ارے کم بخت جازم دی تھی بچھانے کو کیا کر آیا. تمہاری چھوٹی پھپو نے لنڈی کوتل سے منگا کر دی تھی. پھوپها تمہارے گئے تھے وہاں نوکری پر ۔ ارے کیا کر آیا نئی جازم کے ساتھ ” اب فہمیدہ سید جلدی جلدی نئی جازم کی عمر کا حساب جوڑنے لگیں چھوٹی پھپو کو جنت مکانی ہوئے بیس سال ہوگئے تهے. خیر ماموں ہچکیاں لیتے اچھو کو ساتھ لئے جائے وقوعہ کی طرف روانہ ہوئے. پیچھے پیچھے سب بچے بڑے اور امان جان ۔ انتہائی سلیقے سے بستر پر شنگھائ کی جازم بچھی تھی ۔ عقدہ یہ حل کیا ماموں نے کہ اچھو بچھانے کا لفظ بھول گیا اور ” چادر رگڑ دی مروڑ دی ” دہرائے جا رہا تھا ۔ فہمیدہ سید کو وہ ہکلا اچھو اور آج کا اشرف سلیم دونوں کا کوئی موزنہ نہ دکهائی دیا ۔ ” باجی جی وہاں سب کا کیا حال ہے ” اشرف سلیم واپس حال میں لے آیا ۔” سب ٹھیک ہیں تم بتاو ” .. ” باجی جی ابا تو جب آپ امریکہ گئیں، کچھ دن بعد ہی اللہ کو پیارا ہوگیا اور سال بعد اما ں بھی ۔ پھرمیں اکیلا رہ گیا۔ چھوٹے ماموں لاہور لے گئے. میں پڑھتا تھا گاؤں میں. یہاں ماموں نے ہاسٹل میں داخل کرادیا پھر پڑھتا گیا مجھ سے ملنے آتے تھے بہت ہمت بندھاتے سیر کرانے لے جاتے ۔سب مجھےان کا رشتہ دار سمجھتے. باجی جی بہت خیال رکھا ہمیشہ میرا ۔نوکری لگوائی پھر پچھلے سال شادی بھی کرادی . یہیں رہتا ہوں ۔ اب بھی آتے ہیں ماموں اور بہت خوش ہوکر جاتے ہیں ۔ ” اچھو تو اپنی داستان سنانے میں مصروف تھا اور فہمیدہ سید جیسے شرمندگی کی گہرائیوں میں گم تھیں ۔ایسے کتنے ہی اچھو آس پاس ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے اور چھوٹے ماموں جن کو سب لاپرواہ لاابالی اور فضول خرچ سمجھتے رہے اپنے حصے کا چراغ جلانے میں کامیاب رہے وہ خاموشی سے سب سنتےرہے اور ایک ہاتھ سے کئے کی دوسرے ہاتھ کو خبر نہ دی ۔ کیسے یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے معاشرے کا کارآمد اور معزز شخص بننے میں مدد دی ۔ فہمیدہ سید رندھے گلے اور آنسو بھری آنکھوں سے اچھو کی داستان سنتی اور سوچتی رہیں کہ کاش سب لوگ اپنے حصے کا چراغ جلاتے جائیں تو کیوں نہ تاریکی چھٹے گی ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس