بینظیر بھٹو سے پہلے پہل تعارف ہوا جب وہ دلہن بنی نہایت اعتماد سے سر اٹھائے مسکرا رہی تھیں ۔ حقیقت میں تو وہ کیمرے کی طرف دیکھ رہی تھیں لیکن مجھے لگا کہ وہ پیاری سادہ اور حسین مسکراہٹ میرے لیے ہے۔ بس وہ پہلی نظر کی محبت تھی جو ان سے ہوئی۔ اخبار کا وہ صفحہ میری الماری کے اس خفیہ خانے کا حصہ بن گیا جہاں میری قیمتی ترین چیزیں زمانے کی نظروں سےچھپا کر رکھی تھیں۔
بی بی کی طویل سیاسی جدوجہد ، جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانیاں ، استقامت ، پہاڑوں جیسا حوصلہ ہمیشہ متاثر کرتا رہا۔ پھر سب سے بڑی خصوصیت صبر، کیا کیا نہ مصائب دیکھے۔ باپ بھائیوں کی غیر فطری موت ، قیدوبند کی صعوبتیں ، جلاوطنی،اور نجانے کیا کیا کچھ۔ اس بلند حوصلہ خاتون کے پائے اسقلال میں لرزش نہ آئی۔ پھر وفادار بیوی کی ایک تصویر دیکھی جو جیل میں اینٹوں کی چھوٹی سی دیوار پر بچوں کو گود میں لیے بیٹھی اپنے مجازی خدا سے ملاقات کی منتظر تھی ۔ بی بی جب باپ سے آخری ملاقات کرکے نکلی تھی وہ پرانی تصویر یاد آگئی ۔ ماں کا روپ ایسا کہ فخر ہونے لگا ۔ فرمانبردار بیٹی ، محبت کرنے والی بہن ، قربانی دینے والی بیوی ، ممتا نچھاور کرنے والی ماں زندگی کے ہر کردار کو پوری دیانت داری سے نبھایا بی بی نے ۔ پھر جب وزیراعظم بنی تو شان ہی اور تھی۔ جمہوریت بلکہ پاکستان دشمنوں کے گٹھ جوڑ سے کئی بار حکومتیں ٹوٹیں کئی بار بنیں، یوں لگنے لگا "اسلامی جمہوریہ پاکستان” صرف ہم دیوانوں کا خواب ہی رہ جائے گا کہ ایک دفعہ پھر بی بی لوٹ آئیں ۔ اپنے وطن کے لئے اپنے پاکستانیوں کے لیے ۔ نجانے کتنے معتبر لوگوں نے روکا ، واضح اشارے دیے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے مگر وہ تو بے خوف تھیں ۔ یہ جو ہر نتھو خیرا اپنے لیے نعرہ لگواتا پھرتا ہے "بکنے والا نہ جھکنے والا” اور پھر اقتدار میں آکر نہ صرف بکتا ہے بلکہ بیچ بھی دیتا ہے (جو جو کچھ اس کی دسترس میں ہو) تو صرف بی بی پر یہ نعرہ پورا اترتا دیکھا۔ کسی نے ایک دن کہا کہ بینظیر کی گردن پر تل ہے ایسے لوگ قتل ہوتے ہیں۔ سن کر اپنی گلک توڑ کر سب کچھ صدقہ دے دیا مگر تب تک شاید دیر ہوچکی تھی۔ ہنستی مسکراتی بی بی اپنے لوگوں کی محبتوں کا جواب دیتی کسی درندے کی گولی کا شکار ہو گئیں ۔ کاش میں کچھ دیر پہلے صدقہ دے دیتی کاش۔
اخباروں کے دھندلے تراشے آج بھی میرے سامنے پھیلے ہیں ایک پوری فلم ہے۔ پوری زندگی کی کہانی ہے۔ ایک بہادر اور حقوق اور فرائض پورے کرنے والی شہزادی کی۔
افسوس کبھی بی بی کو ووٹ نہیں دے سکی، جب تک رائے دہی کا حق ہی نہ ملا تھا۔ مجھے آپ سے بہت شکایت ہے بی بی آپ نے کیوں اپنی جان کی پروا نہ کی اور اس طرح اپنے لوگوں اپنے پاکستان کو بیچ منجھدار کے چھوڑ گئیں ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn