آج ایک نوزائیدہ اور چالاک صحافی بننے کی بھونڈی کوشش میں انتہائی بھونڈے پن سے ایک نیم لڑکی نما نوجوان جسے انٹرویو کرنے کا بہت زیادہ شوق تھا اس نے سوال کیا "وہی سوال جو ہر انٹرویو لینے والا ادیبوں اور شاعروں سے کرتا ہے آپ کب سے لکھ رہی ہیں اور ریکارڈر سامنے کردیا”۔ میں نے ایک نظر اس کو دیکھا اور پھر کہا میاں تب سے لکھ رہی ہوں جب شاید تمہاری والدہ تمہیں نیپی لگاتی ہوں گی۔ انٹرویو مکمل تو کیا کرتا فورا اپنا ریکارڈر اٹھایا اور چلتا ہوا۔ اتنا ہی کافی تھا اس خودساختہ اور نوزائیدہ صحافی کے لیے اب سنتے رہیں اور سردھنتے رہیں۔ سوال وہیں رہا کہ میں کب سے لکھ رہی ہوں۔ بہت سوچنے پر بھی یاد نہیں آیا۔ تین سال کی عمر میں سکول بھیج دیا ظالم ماں نے اور ابا میاں ہمارے ان کے ہر فیصلے پر عمل کرنے کو تیار، روتی پیٹتی کو ڈنڈا ڈولی کر کے سکول چھوڑ آئے جو کچھ آم، انار تختی بستہ قاعدوں کتابوں میں ہوتا سب سپرد دیوار کردیا کرتی انتہائی ایمان داری سے۔ ا ب پ، ABC، گنتی تک کو گھر والوں نے برداشت کیا۔ جب میرا سکول برآمدے کی دیوار پر تصویر سمیت لکھا تو خوب سرزنش ہوئی، پھر زینہ دو چھتی اور پرچھتی کی دیواریں ساتھی بن گئیں وہاں رہنے والی چھپکلیاں اور پٹر گو سہیلیاں۔ بھئی جب وہ مجھ سے نہیں ڈرتی تھیں تو میں کیوں ڈروں۔ فزکس، کیمسٹری کے فارمولے، فرمودات پھر شکسپیر کارل مارکس پروین شاکر سب کو ایک ہی صف میں کھڑا رکھا۔ دیواریں بہت اچھا سامع ثابت ہوئیں ہمیشہ اور کان تھے بھی ان کے تو پرواہ یہاں کس کو ہے، زندگی کھلی کتاب کی طرح بسر کی، ایمان داری سے۔ ایک دفعہ ایک سہیلی نے مشورتاً دل میں پیوست تیر والے عید کارڈ کے جواب میں لکھنے کے لیے شعر پوچھا نہایت شاندار محبت نامہ لکھ کر دیا جو اس پیاری نے نقل کر کے خوشبودار کاغذ پر لکھ لیا۔ مشورہ تو انتہائی ایمان داری سے دیا اور اسی ایمان داری سے سہیلی کی والدہ صاحبہ کو بھی موصوف کا نام ونشان بتادیا، سزا کے طور پران دونوں کی شادی کردی گئی۔ سہیلی کے میاں صاحب کو مجھ سے کچھ ایسی نفرت ہے کہ مجھ سے ملنے پر پابندی لگادی ہے، نجانے کیوں۔ صاف ستھری دیواریں اب بھی بہت پرکشش لگتی ہیں، مومی رنگوں سے تصویریں بنانے میں کتنا مزہ آتا ہے، مارکر سے تو لکھائی بھی بہت خوبصورت آتی ہے۔ ایک خاتون ہماری خالہ جان کے برابر والے گھر میں رہتی تھیں اب اکیلی رہ رہی ہیں وہاں، میں ان کے گھر گئی۔ خالہ جان والا گھر تو مالک مکان نے دوبارہ تعمیر کیا پرانی کوئی نشانی بھی نہیں باقی۔ ہاں ان کا گھر وہیں ہے اور ویسا ہی ہے۔ دیوار پر میرے ہاتھ سے لکھا میرا فون نمبر بھی وہیں لکھا ہے اور بہت سے نمبروں کے ساتھ، جیسے آٹو گراف ہوں۔ سب دیواریں صاف ستھری تازہ سفیدی شدہ ہیں بس فون سیٹ کے ساتھ والی دیوار نمبروں سے مزین ہے۔ اب تو لوگوں نے دیواروں پر عجیب نقش نگاری کرانی شروع کردی ہے۔ وال پیپر بھی پرانی چیز ہو گئے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ روئی اور ابرق کو گلو میں ملا کر دیواریں سجائی ہیں۔ اب بتائیے ایسی ناہموار سطح پر کیسے لکھاجائے؟ شہر بھر کی دیواریں شاید مجھ جیسے لکھاریوں نے ہی بھر رکھی ہیں۔ اور کب سے لکھ رہی ہیں کا انتہائی ایماندارای سے جواب یہ کہ تین سال کی عمر سے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn