میں بزدل ہوں اور اپنے ہو نے پر شرمندہ ہوں۔ آج ایک واقعہ نے میری سوچ بدل دی۔ کیسے ۔ ۔ ؟ یہ پوری بات سن کر شاید آپ بھی مجھ سے اتفاق کریں ورنہ ایسے دن کا انتظار کریں جب آپ ساری دنیا کے سامنے اپنے بزدل ہونے کا اعلان کریں اور اپنے ہونے پر شرمندہ ہوں۔ کل شام تقریباٰ سات بج گئے ایک فنکشن سے نکلتے۔ ڈرائیور خالد صاحب گردے کے درد میں مبتلا تھے۔ مجھے بہت افسوس ہوا جب میرے پوچھنے پر کہ چائے پی لی خالد صاحب نے بتایا کہ وہ تو صبح سے صرف پانی پی رہے ہیں اب ڈیوٹی سے فارغ ہوکر ڈاکٹر کے جائیں گے۔ ٹریفک بے تحاشا اور ہر کوئی منزل پر پہنچنے کی جلدی میں۔ کلمہ چوک گزرنے کے بعد تو شاید اگلے چوک تک پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ اشارے بند اور ٹریفک کنٹرولر ندارد۔ یہ تو معمول ہوچکا ہے اور ہم سب عادی۔ دو تین شادی گھر جن کے باہر بے تحاشا رش، ٹریفک کا ازدہام۔ گاڑی "سوک سینٹر” سے یونیورسٹی کی طرف مڑی۔ دسیوں گاڑیاں، رکشہ، موٹر سائیکل اور پیدل خلق خدا چلی جارہی تھی۔ اسی سیل رواں میں ہم بھی خس وخاشاک کی طرح بہتے جارہے تھے۔ ایک درخت کے پیچھے موبائل میں بہت دیر سے مصروف ٹریفک وارڈن کے قریب سے گزرے۔ شاید دوسری طرف کوئی بات موصوف کی مرضی کے خلاف کر کے فون بند کردیا گیا تھا جو اسے اپنے فرائض منصبی کا خیال آگیا۔ گاڑی کچھ آگے بڑھی تو جی سیٹیاں بجاتا پیچھے، خالد صاحب نے یونیورسٹی کی دیوار کے ساتھ گاڑی روک دی۔ "نیچے اتر” سپاہی بادشاہ نے رعب سے حکم دیا۔ "تجھے نظر نہیں آیا میں اشارہ کررہا تھا، رکا کیوں نہیں” اب یہ کونسا ہوائی اشارہ تھا اور کب کیا تھا۔ خالد صاحب کے جواب پر کہ میں نے دیکھا نہیں، "کیوں اندھا ہے اشارہ توڑا جب روکا تجھے تو گاڑی بھگالی اب بکواس کرتا ہے دیکھا نہیں اندھا ہے”، بدزبانی تو ختم ہے اس محکمے پر۔ خالد صاحب گھگھیا رہے تھے "سر جی اشارہ تو بند تھا اور سارے جارہے تھے”، سپاہی بادشاہ کے سامنے ایک بوڑھا تھا کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کی عزت نفس نہ کچلتا۔ "میں بکواس کررہا ہوں نکل باہر چوری کر کے بھاگا ہے یا شراب پی کے آیا ہے سنتا نہیں کان بھی خراب ہیں”، اب میرا بولنا ناگزیر تھا۔ "آرام سے بات کریں بزرگ ہیں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ڈاکٹر کو دکھانا ہے”۔ سپاہی بادشاہ کی رعونت حد سے گذر چکی تھی "سن لیا نہیں مرتا اتنی جلدی بڈھا میری ذمہ داری”۔ خالد صاحب اس کی بکواس سن کر شرمندہ ہو کر بولے "بی بی سے ایسے نہ بولیں سر”۔ مکروہ قہقہ مار کر سپاہی بادشاہ نے مزید بکواس کی، "ہاں بابے کی سفارشی بی بی اور بی بی کا سفارشی بابا۔ اترو گاڑی بند کررہا ہوں۔ بی بی تھانہ دیکھنا ہے تو بیٹھی رہو گاڑی میں”۔ اتنی بدتمیزی اور اتنی بدزبانی زندگی بھر میرے ساتھ نہیں کی کسی نے آج تک۔ اللہ کی شان قانون کے رکھوالے وہ بھی ٹریفک وارڈن جن کی فرض شناسی کی ہم مثال دیتے نہیں تھکتے پہلی دفعہ زندگی میں واسطہ پڑا اور اتنا تلخ تجربہ، توبہ ہی کی جاسکتی ہے۔ میرے تو یقین مانئے سناٹے بیت گئے۔ "کیا یہ بھی اسی ہراسمنٹ کی ایک شکل ہے جس پر بہت زور وشور سے بحث جاری ہے”۔ کس طرح خالد صاحب نے معاملہ حل کیا، اس خبیث بدبودار اور گھٹیا انسانیت کے نام پر دھبہ قانون کے نام نہاد رکھوالے سے جان چھڑائی مجھے کچھ خبر نہیں۔ خالد صاحب نے گھر پہنچ کر انتہائی شرمندگی سے صرف اتنا کہا، "بی بی میری طبیعت بہت خراب ہے اللہ کی قسم کھاتا ہوں میں نے پولیس والے کو نہیں دیکھا تھا سوری بی بی”۔
رات سے خالد صاحب کی شدید طبیعت خراب ہے ان کی بیگم پریشانی کے عالم میں بار بار فون کر رہی ہیں۔ میں خود کو ان کا مجرم محسوس کررہی ہوں۔ کاش میں اس بد زبان پلسیے کا منہ توڑ دیتی اسی وقت پھر جو ہوتا دیکھی جاتی۔ اس سب میں حسب معمول دکھ سکھ کے ساتھی نے فون نہیں سنا کیونکہ وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے اور میرے لیے دعاگو تھے۔ سوچ یہ بدلی کہ میں جو ہر کسی کے بچوں کو سمجھاتی پھرتی تھی پاکستان چھوڑ کر مت جاو اپنے وطن کا ہم پر قرض ہے وطن کی خدمت کرو اب کم از کم اپنا منہ بند رکھوں گی انشاء اللہ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn