Qalamkar Website Header Image

شام کا اخبار | مصلوب واسطی

ایک زمانے میں شہر لاہور کے مشہور صحافی نے شام کا اخبار شائع کرنا شروع کیا۔ یہ ایک نیا ٹرینڈ تھا تو بھرپور پذیرائی ہوئی۔ جب کام چل نکلا تو اخباری گروپ کے ایک متمول زیر تربیت صحافی نے مالک سے جھگڑ کر اپنا اخبار شروع کر دیا اور چیف ایڈیٹر بن گئے۔ صاحب بہادر نے اخبار تو نکال لیا لیکن مطلوبہ تجربے کی کمی کے باعث اچھی ٹیم نہ بنا سکے۔ نتیجہ وہی نکلا جو غیر پیشہ ورانہ ادارت کی صورت میں نکلتا ہے۔ معیاری مواد اور خبروں کی بجائے ہیجان انگیز تصویروں، غیر اخلاقی و غیر تصدیق شدہ یک طرفہ خبروں اور معاصر اخباروں پر بے جا تنقید سے اخبار کا پیٹ بھرا جانے لگا۔ یاد رہے کہ اس وقت پی پی پی حکومت کے اخباری کاغذ بے تحاشہ مہنگا کرنے کے باعث ریگولر اخبار عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکا تھا۔ اسی لئے شام کے اخبار آلٹرنیٹ یعنی متبادل میڈیا کے طور پر ابھرے۔

پھر وقت بدلا اور اخبارات کی یکسانیت سے اکتائے افراد کے لئے الیکٹرانک میڈیا پرنٹ کے متبادل کے طور پر ابھرا۔ شروع میں چند معیاری چینل آئے اور پھر پہلے کی طرح کئی زیر تربیت افراد ذاتی چینل کھول کر چیف ایڈیٹر بن گئے۔ آپ غور کریں تو کچھ عرصے بعد معیاری مواد ختم یا مہنگا ہونے کے باعث اکثر ٹی وی چینل شام کے اخبارات کی ڈگر پر چل پڑے اور ٹرانسمیشن کا پیٹ بھرنے کے لئے اسی سستی نوعیت کا مواد نشر کرنے لگے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی پیشہ ورانہ تنزلی اور سستی شہرت کے لئے تنازعات ایجاد کرنے کے زمانے میں بھی کئی نیک نام اداروں نے معیار اور اخلاقیات کا دامن تھامے رکھا۔

یہ بھی پڑھئے:  جوانانِ جنت کے سردار، اِمام حسن المجتبی علیہ السلام ۔ حنان صدیقی

وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور عوام الیکٹرانک میڈیا کے طریقۂ کار اور من مانیوں سے بھی اکتاتے رہے۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا ابھرنا شروع ہوا تھا لیکن ابھی صارفین کو اس کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کئی واقعات پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی بددیانتی اور بلیک آؤٹ پر سوشل میڈیا کہ طاقت کو تجرباتی طور پر آزمایا گیا جو توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا۔ اس کے بعد سوشل نیٹ ورک اور آن لائن میڈیا تیزی سے مضبوط متبادل بن گیا۔ پاکستان میں بھی اردو مواد کی ترقی اور متبادل میڈیا کی فراہمی کے لئے ایسے معیاری پراجیکٹ بنے اور کئی ویب سائٹس عوام میں مقبول ہوئیں جن کے بانی یا روح رواں جید صحافی تھے۔ سوشل اور آن لائن میڈیا کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے حسب سابق نیم صحافی کی طرح کئی موسمی اداکار بھی میدان میں طبع آزمائی کے لئے کود پڑے۔ حسب توقع جب ایسی ادارتی کھمبیوں کو مناسب مقدار میں مواد نہ ملا تو تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دوہرایا لیکن اب پہلے ہوئے تجربوں کے باعث پہچان بہت آسان ہے۔

قارئین، آپ جس ویب سائٹ یا سوشل نیٹ ورک صفحے پر ہیجان انگیز تصاویر، غیر اخلاقی خبریں و تحاریر، یک طرفہ یا غیر تصدیق شدہ تحقیق، غیر ضروری تنازعات اور معاصر ویب سائٹس یا صفحات پر بے جا سستی تنقید دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ یہ بھی کسی بزعم خود چیف ایڈیٹر صاحب کا شام کا اخبار ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس