چند دن پہلے مستنصر حسین تارڑ نے پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر کی یادوں کے حوالے سے بہت مسحور کن تحریر لکھی جس میں انہوں نے پی ٹی وی لاہور سنٹر میں گزرے لمحوں کو یوں بیان کیا جیسے ہم کوئی تحریر نہیں بلکہ انہی کا لکھا ہوا ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ تارڑ صاحب نے لکھا ’’پی ٹی وی لاہور اور اسلام آباد سینٹرز میرے دوسرے گھر تھے جن کے سٹوڈیوز، برآمدوں اور میک اپ کے روموں میں مَیں نے چالیس برس سے زیادہ عرصہ قیام کیا۔ ایک اداکار کے طور پر اپنے میڈیا کیریئر کا آغاز کیا پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور مَیں اداکاری، ڈرامہ نگاری اور میزبانی کے شعبوں میں بھٹکتا اپنی ناقص کارکردگی کے باوجود شہرت کی چکاچوند میں داخل ہو گیا یہاں تک کہ تقریباً آٹھ برس تک ٹیلی ویژن کے پہلے مارننگ شو کے میزبان کی حیثیت سے میری پہچان کی کوئی سرحد نہ رہی۔۔۔۔۔۔ اور یوں چالیس برس یوں گزرے کہ جیسے بس ایک پلک جھپکی ہے۔ جب کبھی اور کبھی کبھی جب مجھے پی ٹی وی کی جانب سے کسی شو میں شرکت کا دعوت نامہ آتا ہے تو مَیں بہانے تراشتا ہوں کہ مَیں مصروف ہوں، بوڑھا ہو گیا ہوں۔ پہاڑوں پر جا رہا ہوں، ڈاکٹر کے ساتھ وقت طے ہے جھوٹ بولتا ہوں کہ مَیں دراصل لاہور سنٹر کے اندر جانا نہیں چاہتا۔ ان برآمدوں میں روحیں بھٹکتی ہیں وہ مجھ سے لپٹ جائیں گی، شکایت کریں گی کہ ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے اور کب آؤ گے، کب آؤ گے مورا تم بن جیا اداس رے۔‘‘
اس تحریر میں تارڑ صاحب نے بے شمار بچھڑنے والوں کا تذکرہ کیا لیکن تفصیل سے انہوں نے یاور حیات (تب حیات تھے)، محمد نثار حسین اور کنور آفتاب احمد کو یاد کیا۔ میری ان تینوں سے کبھی ملاقات نہ تھی لیکن ٹی وی سکرین پر ان کے پروڈیوس کیے ہوئے ڈرامے دیکھ کر کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ تینوں میرے لیے انجان ہیں۔ لاہور ٹی وی سنٹر سے ان تینوں نے ڈرامے کو اپنی صلاحیتوں کے ذریعے عروج بخشا اور پی ٹی وی لاہور سنٹر کے ڈرامے پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں پسند کیے جانے لگے۔
کبھی کبھی دل میں خواہش ہوتی کہ مَیں مستنصر حسین تارڑ کے ذریعے ان بڑے لوگوں کے نیاز حاصل کروں لیکن یہ بڑے لوگ تب مصروف ہی بہت ہوتے تھے کہ چھوٹے شہروں سے آنے والے مداحوں سے کیسے ملنے کا وقت نکال سکتے تھے۔ اب تارڑ نے لاہور پی۔ٹی۔وی سنٹر کے حوالے سے کنور آفتاب احمد کا ذکر کیا تو مجھے ان کے بڑے بھائی صبح صادق حمید یاد آ گئے جو لکھتے تو انگریزی ہیں لیکن انہوں نے اپنی خودنوشت ’’صبح صادق‘‘ کے نام سے اُردو میں لکھی ہے۔ صبح صادق حمید کا تعلق ملتان سے ہے لیکن وہ ایک عرصے سے کراچی میں رہائش پذیر ہیں البتہ ان کی بیٹی ڈاکٹر سلمیٰ تنویر نشتر ہسپتال میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ صبح صادق حمید ملتان اور اہلِ ملتان سے بہت محبت کرتے ہیں اور گاہے گاہے اپنے والدین اور بھائیوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی اور بیٹی سے ملنے آتے رہتے ہیں۔ ملتان سے محبت کا عالم یہ ہے کہ وہ ملتان کی تاریخی حیثیت پر کتاب ناول کی صورت میں لکھنا چاہتے ہیں لیکن اب پیرانہ سالی کی وجہ سے ایسا نہ کر سکیں۔ صبح صادق حمید نے اپنی کتاب میں چھوٹے بھائی کنور آفتاب احمد کے متعلق لکھا کہ ’’وہ ذرا لااُبالی طبیعت کا مالک ہے اور کوئی کام جم کر نہیں کرتا ویسے وہ انتہائی قابل ہے۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہے اسے اعلیٰ سطح پر لے جاتا ہے۔ عملی زندگی میں اس نے کئی تجربے کیے۔ اس نے فلم پروڈکشن کا ایک کورس لندن سے کیا، واپس آ کر فلم بنائی۔ وہ ایک تجرباتی فلم تھی اس لیے وہ بری طرح ناکام ہو گئی۔ اپنے شوق کی وجہ سے پی۔ٹی۔وی میں نوکر کی۔ محنت سے وہ جنرل منیجر کے عہدے تک تو پہنچ گیا لیکن وہی لااُبالی طبیعت کی وجہ سے مستعفی ہو کر ایڈورٹائزنگ کے شعبہ میں آ گیا۔ اس کام کے لیے وہ لاہور سے کراچی بھی منتقل ہوا۔ لیکن دفتری مسائل کی وجہ سے دل برداشتہ ہو کر جلد ہی لاہور چلا گیا۔ کنور آفتاب احمد کے تین بیٹے ہیں بڑا شاہ رخ ڈاکومینٹری فلمیں بنا رہا ہے۔ سب سے چھوٹا بیٹا شاہ زاد مغربی موسیقی کا دلدادہ ہے جبکہ منجھلا بیٹا کسی علمی ادبی ادارے میں نوکری کر رہا ہے۔‘‘
کنور آفتاب احمد نے 1958ء میں اپنی پہلی فلم ’’جھلک‘‘ تیار کی لیکن باکس آفس پر یہ فلم بری طرح ناکام رہی۔ 1964ء میں جب پی ٹی وی شروع ہوا تو فوراً ہی کنور آفتاب احمد نے ٹی وی کو جوائن کر کے ٹیلی ویژن ڈراموں کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ ان کے مشہور ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹوراما اور شہ زوری، خواب جاگتے ہیں۔ یا نصیب کا نیک، سونے کی چڑیا اور کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔
کنور آفتاب احمد نے پی ٹی وی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دستاویزی فلم بھی تیار کیں خاص طور پر سیالکوٹ کی فٹبال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم "A Ball Named Tango” نے کئی عالمی اعزازات اور ایوارڈز بھی لیے۔ آزادی کے مجرم نامی سلسلے میں ان کا پروڈیوس کیا ہوا ڈرامہ جس میں منور سعید نے مولانا محمد علی جوہر کا کردار کیا تھا وہ اسے اپنے کیریئر کا یادگار ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔
کنور آفتاب احمد کا 10 ستمبر 2010ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔ پی۔ٹی۔وی کے اس معمار کو وصیت کے مطابق ملتان میں اپنے والدین کی قبروں کے ساتھ نشتر ہسپتال کے قریب قبرستان بابا کلیاں والا میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا انتقال رمضان المبارک کے آخری جمعتہ المبارک کو ہوا اور عید کے دن تدفین ہوئی۔ پوری دنیا میں اپنے کام کے حوالے سے شہرت پانے والے کنور آفتاب احمد کے ملتان میں سپردِ خاک ہونے کی خبر کسی اخبار میں بھی نہ شائع ہوئی جس وجہ سے ان کے چاہنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ وہ لاہور میں دفن ہیں حالانکہ یہ وہی قبرستان ہے جہاں پر اُردو کے نامور شاعر و افسانہ نگار عرش صدیقی دفن ہیں۔ کنور آفتاب احمد کے حوالے سے جب مستنصر حسین تارڑ نے لکھا تو مجھے ان کا ملتان سے تعلق یاد آ گیا کہ ملک کا یہ نامور سپوت اب ملتان کی مٹی میں آسودۂ خاک ہے۔ اس لیے آج کا یہ کالم انہی کے نام کرتا ہوں کہ یاور حیات کی حیات کے واقعات لکھنے والے تو بے شمار ہیں لیکن کنور آفتاب احمد کی زندگی کا چراغ غروب ہوئے کئی سال گزر گئے ہیں لیکن مستنصر حسین تارڑ کی یادوں کی کہانی نے ان کو ایک مرتبہ پھر آفتاب بنا دیا ہے۔ تھینک یو تارڑ! یو آر گریٹ ہو جی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn