Qalamkar Website Header Image

مشتاق شیدا کا جہاں مکمل ہوا – شاکر حسین شاکرؔ

shakir-hussain-shakirمیرے سامنے نامور صحافی، ادیب، سیاست دان خالد حسن کی ترتیب دی ہوئی کتاب ’’قرۃ العین حیدر کے خطوط ایک دوست کے نام‘‘ پڑی ہے۔ یہ کتاب مَیں نے 2003ء میں پڑھی تھی۔ پھر یہ کتاب میرے شیلف سے غائب ہو گئی۔ اکتوبر 2016ء میں یہ کتاب ایک مرتبہ پھر میرے سامنے آئی تو مَیں نے فوراً اسے اپنی لائبریری کا حصہ بنا لیا کہ اس کے دونوں کردار یعنی قرۃ العین حیدر اور خالد حسن اب دنیا میں نہیں رہے۔ کتاب کو پھر سے پڑھنا شروع کیا تو مجھے ایسے معلوم ہوا جیسے مَیں یہ کتاب پہلی مرتبہ پڑھ رہا ہوں۔ یہ قرۃ العین حیدرکے خطوط اور خالد حسن کے خطوط پر مشتمل ہے کتاب کے دیباچے میں خالد حسن لکھتے ہیں:
’’کراچی کی ایک سڑک ہے جو انفسٹن اسٹریٹ اور وکٹوریہ روڈ کو آپ میں ملاتی ہے۔ مَیں پرانے نام استعمال کر رہا ہوں کیونکہ مَیں ان سڑکوں کو اسی طرح یاد کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ٹھیک سے نہیں معلوم کہ کیپٹل سینما جو اُس سڑک پر واقع تھا اور جہاں انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں اس سینما کے سامنے پان سگریٹ کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ مَیں اس دکان کے پاس اکثر شام کے وقت ادھیڑ عمر کے ایک آدمی کو کھڑا دیکھتا تھا۔ وہ بس وہاں کھڑا سگریٹ پیتا اور آس پاس کے گزرتے لوگوں کو تکتا رہتا۔ مَیں نے ایک بار کسی سے اس کے بارے پوچھا ’یہ صادق علی ہے جو اپنے زمانے میں پرنس آف منروا مووی ٹون کہلاتا تھا۔‘
ہاں وہ مجھے یاد تھا۔ مجھے یہ بھی یاد تھا کہ دس برس کی عمر میں جموں میں مَیں اپنے دوست کے ساتھ ایک فلم دیکھنے گیا تھا جس کے ستاروں میں ثریا اور صادق علی شامل تھے۔ صادق نے اس فلم میں ایک ڈاکٹر کا رول کیا تھا جو ثریا سے معلوم نہیں کیوں ترکِ تعلق کر لیتا ہے۔ اگلے روز وہ اس کے کلینک پر آتی ہے اور اپنا آدھا چہرہ نقاب میں چھپائے دوسرے مریضوں کے ساتھ بنچ پر بیٹھ جاتی ہے۔ صادق علی ہر مریض کی نبض دیکھتا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جب وہ اس کے پاس پہنچتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتی ہے اور وہ اس کی کلائی تھام لیتا ہے۔ اچانک وہ اپنا چہرہ سامنے کر کے اس کی طرف دیکھتی ہے۔ اسے پہچان کر وہ اس کی کلائی چھوڑ دیتا ہے۔ ’’کل ساتھ چھوڑا تھا آج ہاتھ بھی چھوڑ دیا‘‘ وہ سوال کرتی ہے۔ یہ مکالمہ پچاس برس سے زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی مجھے یاد ہے۔‘‘
خالد حسن کی یہ تحریر مَیں نے ایک ہفتے میں دو مرتبہ پڑھی۔ پہلی مرتبہ تب جب یہ کتاب دوبارہ مَیں نے خریدی، دوسری مرتبہ تب اس تحریر کو پڑھنا پڑا جب رضی الدین رضی نے 19 اکتوبر 2016ء کو فون کر کے بتایا کہ مشتاق شیدا صاحب کا انتقال ہو گیا ہے جنازہ 20 اکتوبر کو نمازِ ظہر کے بعد ہو گا۔
قارئین کرام! آپ سوچ رہے ہوں گے قرۃ العین حیدر اور خالد حسن کے ذکر میں مشتاق شیدا کون ہیں؟ مشتاق شیدا ملک کے نامور ادیب، شاعر، دانشور اور قانون دان تھے جنہوں نے پوری زندگی قرۃ العین کی تحریروں سے عشق کرتے گزاری۔ وہ بھارت گئے تو اپنی یادوں کی پوٹلی میں قرۃ العین حیدر سے ملاقاتوں کا سامان بھر لائے جس کو وہ تمام زندگی دوستوں کو سناتے رہے۔ ان کی بیٹی صباحت مشتاق بھی افسانہ نگار اور ماہرِ تعلیم ہیں جس کی پہلی کتاب پر قرۃ العین حیدر نے 1997ء میں بھرپور انداز سے مضمون لکھا۔ مشتاق شیدا اُردو اور پنجابی ادب کے شیدا تھے۔ یادداشت بھی بلا کی تھی۔ میرے کالم پر کسی شخصیت کے بارے میں معلومات کم ہوتیں تو وہ طویل فون کر کے اس کے بارے میں گفتگو کرتے۔ ہمیشہ بیٹا کہہ کر بات شروع کرتے اور خوشی اس بات کی ہوتی کہ وہ مجھ سے پنجابی میں بات کرتے۔
تقریباً ڈیڑھ برس ہوا اپنی صباحت مشتاق کی نئی کتاب ’’اعتراف‘‘ دینے کے لیے آئے اور فرمائش کی کہ اس پر ایکسپریس میں کالم لکھوں۔ انہی دنوں جناب انتظار حسین نے صباحت مشتاق کی کتاب پر ایک شاندار کالم لکھ دیا۔ ان کا صبح سویرے فون آیا ’’انتظار حسین کا میری بیٹی صباحت کے بارے کالم پڑھا ہے؟‘‘ مَیں نے کہا ابھی اخبار نہیں پڑھا۔ ’’تم کالم پڑھ لو مَیں تمہیں دوبارہ فون کرتا ہوں۔‘‘ (یاد رہے یہ ان کا مختصر ترین فون تھا) دو گھنٹے بعد پھر ان کا فون آیا تب تک مَیں انتظار حسین صاحب کا کالم حفظ کر چکا تھا۔ مشتاق شیدا صاحب سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ انہوں نے پھر کہا تم نے صباحت کی کتاب پر کالم ضرور لکھنا ہے۔ مجھے ان کا اپنی بیٹیوں سے پیار کرنا اور دورانِ گفتگو بار بار بچوں کا تذکرہ کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ مَیں نے صباحب مشتاق کی کتاب پڑھی لیکن ایکسپریس کے لیے تبصرہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ جس کتاب کی تعریف انتظار حسین کر چکے تھے مَیں کہاں اور میری تحریر کہاں؟
شیدا صاحب کا معمول تھا کہ ان کا میرے ہر ادبی کالم پر فون آتا۔ کالم پر ان کا تبصرہ کالم سے طویل ہوتا۔ بات کرتے ہوئے وہ یہ بھی کہتے رہتے کہ مجھے معلوم ہے کہ بات لمبی ہو گئی ہے لیکن اگر کالم میں یہ قصہ بھی آ جاتا تو لطف آ جاتا۔ مجید امجد والے کالم پر ان کی داد مجھے اب بھی یاد ہے کہ وہ بڑی اپنائیت سے بات کرتے ہوئے اچانک کہنے لگے ’’شاکر بیٹا مینوں ہن تیرے کالم دی عادت ہوندی جا رہی اے۔‘‘ مَیں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو بولے ’’یار توں میرے یاراں نوں یاد کردا ایں تے مینوں انج لگدا اے جیویں میرے بارے لخ رہیا ایں۔‘‘
ایک دن رضی نے بتایا کہ مشتاق شیدا اپنی کتاب کا مسودہ دے گئے ہیں اور ساتھ یہ حکم بھی دے گئے ہیں کہ کتاب کو ترتیب دو۔ رضی نے بڑی محنت سے کتاب کو ترتیب دیا۔ دیباچہ لکھا اور وہ کتاب برادرم ظہور دھریجہ نے شائع کر دی۔ کتاب مشتاق شیدا نے ’’بس اتنا ہی تھا میرا کارِ جہاں‘‘ رکھا جو قرۃ العین حیدر کی کتاب ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ سے مستعار لیا گیا۔ وہ قرۃ العین حیدر کی تحریروں کے عاشق تھے۔ ان سے ملاقاتوں کو اپنی زندگی کا حاصل قرار دیتے تھے۔ کتاب کے سرورق پر بھی انہوں نے اپنی ایک تصویر عینی آپا (وہ قرۃ العین کو عینی آپا ہی کہتے تھے) کے ساتھ شائع کی۔ جب کتاب شائع ہو گئی تو رضی نے مجھے کتاب کے ظہور کی اطلاع دی تو مَیں نے کہا میرا نسخہ مشتاق شیدا سے مانگ لیتے۔ رضی کہنے لگے ابھی تو وہ ایک کاپی دے گئے ہیں۔ کہتے تھے جیسے ہی باقی کتابیں آئیں گی دوستوں کو خود دوں گا۔ یہ بات تقریباً ایک ماہ پہلے کی ہے۔
وقت گزرتا رہا۔ مَیں حسین سحرؔ کی ناگہانی موت کے بعد کچھ اس طرح مصروف رہا کہ اپنوں اور غیروں کی تقسیم میں کافی وقت صرف ہو گیا۔ ایسے میں مشتاق شیدا کی موت کی خبر نے اداس کر دیا۔ 19 اکتوبر کو انتقال ہوا۔ 20 کو جنازہ طے تھا۔ شہر والوں کو اطلاع کر دی گئی۔ ملتان کی نقشبند کالونی کی ایک مسجد کے لان میں مشتاق شیدا کی میت پڑی تھی۔ شہر کے ادیبوں کی حاضری اتنی ’’زیادہ‘‘ تھی کہ ہاتھوں کی انگلیاں زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب جنازہ پڑھنے کی تیاری ہو رہی تھی تو کسی نے آواز دی سات لائنیں تو بن گئی ہیں اگر نو بنتی ہوں تو وہ بنا لیں۔ نماز جنازہ، دُعائے مغفرت، اعلانِ قل خوانی اور آخر میں آخری دیدار کرنے کے لیے آگے بڑھا تو کسی نے جلدی سے چہرے پر کفن کے بند باندھے مَیں تیزی سے آخری دیدار کرنے چلا تو بیک وقت آٹھ دس کلمۂ شہادت کی آوازوں نے مجھے وہیں روک دیا اور مجھے خالد حسن کا لکھا ہوا مکالمہ یاد آ گیا:
’’کل ساتھ چھوڑا تھا آج ہاتھ بھی چھوڑ دیا‘‘
اور مَیں نقشبند کالونی ملتان کی مٹی کو اپنے چہرے پر سجائے صباحت مشتاق کے اس خاکے کو یاد کر رہا تھا جس میں انہوں نے اپنے ابا کے بارے میں لکھا:
’’ایک دن ہم دونوں بچپن کی تصویروں سے ہٹ کر یونیورسٹی کے گروپ فوٹوز دیکھ رہے تھے۔ فرنٹ رو چیئرز ٹانگیں کراس کیے اور گود میں ہاتھ رکھے چیئرمین فیکلٹی اور ٹیچرز، فرنٹ رو سٹینڈنگ دائیں سے بائیں نمبر تین صباحت مشتاق۔ دوسری تصویر پر اسی طرح کرسیوں پر بیٹھے اساتذہ۔ فرسٹ رو سٹینڈگ دائیں سے بائیں نمبرچار فرحت مشتاق (چھوٹی)۔ ابا یہ تصویریں روز دیکھتے ہیں۔ یہ ان کے فرشی بستر اور بک شیلفوں کے عین سامنے دیوار پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ تصویریں اس طرح لگی رہیں گے اس وقت بھی جب ہم ایک ایک کر کے یہاں رخصت ہو جائیں گے اور اس وقت بھی جب ان میں سجا ہر چہرہ ماضی میں ڈوب کر صرف ایک ایک نام رہ جائے گا۔‘‘

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »