Qalamkar Website Header Image

پرتو روہیلہ کی موت پر غالب شناس کی یاد – شاکر حسین شاکرؔ

shakir-hussain-shakirستمبر29، 2016ء کی سہ پہر رضی الدین رضیؔ نے نامور شاعر، دانشور اور مترجم پرتو روہیلہ کے انتقال کی خبر سنائی تو مجھے اُن کے حوالے سے ایک خوبصورت واقعہ بے ساختہ یاد آ گیا۔ اس واقعہ میں پرتو روہیلہ خود تو موجود نہیں لیکن اُن کی کتابوں کے حوالے سے بہت سے دلچسپ احوال موجود میں۔ وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ چند سال پہلے ملتان میں اسلام آباد میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصلیٹ آغائے تقی سابقی مختلف تقریبات میں شرکت کے لیے آئے۔ اسلام آباد سے ان کے ہمراہ معروف شاعر، ادیب، محقق اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر کمیل قزلباش بھی ملتان آئے۔ اُن سے ملاقات کے دوران مَیں نے ان سے معروف ماہر غالبیات مترجم، ماہر تعلیم، دانشور پروفیسر لطیف الزماں خاں کی لائبریری کا ذکر کیا۔ مَیں نے ایرانی قونصلیٹ کو یہ نہیں بتایا کہ پروفیسر لطیف الزماں خاں کے ہاں جہاں فارسی کی بے شمار نایاب کتب موجود ہیں وہاں مرزا غالب کے فارسی کلام کے وہ تمام نسخے موجود ہیں جو دنیا کے کسی بھی حصے میں شائع ہوئے جن سے خاں صاحب اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ان کے گھر میں بیٹھ کر ہم وہ کتابیں دیکھ سکتے، پڑھ سکتے ہیں لیکن خاں صاحب ان کو گھر سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ انہوں نے اپنے گھر کا نام بھی ’غالب نما‘ رکھا ہوا تھا۔ میرا یہ کہنا تھا ایرانی قونصلیٹ نے کہا کہ ہمیں پروفیسر لطیف الزماں خاں کے ہاں لازمی جانا ہے۔ آپ ان سے وقت لیں۔ خاں صاحب درویش صفت شخصیت تھے۔ گھر میں Casual انداز سے رہتے تھے۔ مَیں نے انہیں فون کیا اور بتایا ایرانی قونصلیٹ آپ کی لائبریری میں موجود فارسی کتب کے ذخیرے کو دیکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے فوراً حامی بھر لی۔ اس کے ساتھ یہ بھی حکم صادر کیا کہ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام کو بھی اطلاع کر دیں ان کو بھی اس موقع پر موجود ہونا چاہیے۔ 
مقررہ وقت پر ہم دو گاڑیوں پر احباب ’غالب نما‘ کے باہر کھڑے تھے۔ ایرانی قونصلیٹ کی سیکورٹی نے اُن کے گھر کو گھیرے میں لے لیا۔ میرے داخل ہونے سے پہلے پولیس اہلکار داخل ہوئے تو خاں صاحب ایک دم سے انہیں دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ ان کے پیچھے مجھے اور ایرانی قونصلیٹ کو دیکھا تو ان کی جان میں جان آئی۔ ابھی ہم جا کر بیٹھے ہی تھے ڈاکٹر ابرار عبدالسلام بھی آ گئے۔ گفتگو کا سیشن شروع ہوا تو خاں صاحب نے بتایا کہ ان کی لائبریری میں ایران میں جتنے بھی دیوانِ غالب شائع ہوئے ہیں موجود ہیں۔ یہ سن کر ایرانی مہمان بہت خوش ہوئے۔ اتنی دیر میں چائے پیش کی گئی۔ خاں صاحب نے ابرار عبدالسلام کو کہا کہ لائبریری میں جس جس جگہ پر فارسی کتابیں موجود ہیں ان کو لے کر آؤ اور مہمانوں کو دکھاؤ۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام خان صاحب کے سچے عاشق اور ان کی لائبریری کی کتابوں کے حافظ تھے۔ کچھ ہی لمحوں میں انہوں نے فارسی کتب کے ڈھیر مہمانوں کے سامنے رکھ دیئے۔ ایرانی قونصلیٹ نے ہر کتاب کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر تصویر بنوائی۔ خان صاحب سے آٹوگراف لیے اور دو اڑھائی گھنٹوں بعد رخصت ہو گئے۔ پروفیسر لطیف الزماں خاں نے تمام مہمانوں کی خدمت میں اپنے خطوط کے مجموعے ’انشائے لطیف‘ پیش کیے جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیے۔ جواب میں ایرانی قونصلیٹ آغائے تقی سابقی نے ایران میں شائع شدہ فارسی کتابوں کے کچھ نسخے پیش کیے۔ 
مہمان رخصت ہو گئے سہ پہر میں خان صاحب کا شکریہ کا فون آیا کہ آپ کی وجہ سے میری لائبریری میں کچھ فارسی کتابوں کا اضافہ ہو گیا۔ دوسری جانب ڈاکٹر کمیل قزلباش کا یہ کہنا تھا کہ شاکر بھائی ہم اتنے عرصے سے ملتان آ رہے تھے لیکن افسوس یہ ہے کہ شہر کے ایک بڑے لکھنے والے سے ہماری ملاقات نہیں تھی۔ ایرانی قونصلیٹ اور میری طرف شکریہ قبول کریں کہ آپ نے پروفیسر لطیف الزماں خاں اور ان کی لائبریری دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ مَیں بھی خوش تھا چلو ہمسایہ ملک ایران کے ایک اعلیٰ سفارتی عہدیدار نے پروفیسر لطیف الزماں خاں کی لائبریری دیکھ لی۔ اگلی صبح ابھی مَیں سویا ہوا تھا کہ میرے موبائل پر پروفیسر لطیف الزماں خاں کا فون آیا اور وہ خاصے ناراض لگ رہے تھے۔ انہوں نے بغیر سلام دُعا کے کہا شاکر صاحب کل آپ میرے ہاں تشریف لائے تھے اور جاتے ہوئے غلطی سے پرتو روہیلہ کا ترجمہ کیا ہوا ’’کلیاتِ مکتوباتِ فارسی غالب‘‘ کا نسخہ لے گئے ہیں۔ وہ فوراً واپس کر دیں۔ مَیں نے خان صاحب سے کہا کہ جس کتاب کی آپ بات کر رہے ہیں اس کتاب میں میری دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ میرے پاس غلام رسول مہر کے مرتب کردہ خطوطِ غالب موجود ہیں۔ مَیں تو ابھی اُن کو پڑھ کے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ فارسی خطوط کی باری تو بعد میں آئے گی۔ پروفیسر لطیف الزماں خاں نے میری اس بات کے جواب میں فوراً کہا دیکھیں شاکر صاحب آپ کا ہمارا تعلق اپنی جگہ پر لیکن مَیں کتاب کے معاملے میں بہت بے رحم ہوں اور اگر آپ نے ایک گھنٹے کے اندر اندر یہ کتاب واپس نہ بھجوائی تو آپ کا ہمارا تعلق ختم ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر خان صاحب نے فون بند کر دیا۔ مشکل کے اس لمحے پر ہمیں بے ساختہ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام یاد آئے۔ ہم نے انہیں فون کیا اور خان صاحب کا پورا قصہ سنایا تو ہنس کر کہنے لگے آپ کو معلوم ہے کہ خان صاحب کے اس طرح کے ٹیلیفون ہر پندرہ دن بعد میرے پاس بھی آتے ہیں۔ آپ فکر نہ کریں اور گیارہ بجے تک ان کے گھر آ جائیں مَیں بھی کالج سے وہاں آ جاتا ہوں اور جو بھی صورتحال ہوتی ہے اس سے نبردآزما ہوتے ہیں۔ گیارہ بجے مَیں پروفیسر لطیف الزماں خاں کے گھر ’غالب نما‘ پر موجود تھا۔ ڈاکٹر ابرار عبدالسلام میری مدد کے لیے پہلے سے موجود تھے۔ خان صاحب کا موڈ آف تھا۔ مَیں نے خان صاحب کو بتایا کہ کتاب آپ کے کہیں اردگرد ہی ہو گی۔ لیکن وہ ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ مجھے پرتو روہیلہ کی کتاب فوراً چاہیے کیونکہ آج مَیں نے اس کتاب کا مطالعہ کرنا ہے۔ میری اور خان صاحب کی یہ بات چیت جاری تھی کہ ابرار عبدالسلام نے اس کتاب کا نسخہ صوفے کے نیچے سے نکالا اور خان صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ خان صاحب کتاب کو دیکھتے ہی یوں خوش ہوئے جیسے کوئی بچہ اپنا پسندیدہ کھلونا دیکھ کر نہال ہو جاتا ہے۔ خان صاحب نے کتاب کو اپنی گود میں رکھا اور میری طرف مخاطب ہوئے شاکر صاحب ہم نے آپ کی دل آزاری کی اس کے لیے مَیں معذرت چاہتا ہوں۔ ہم نے کہا خان صاحب ایسی بات نہ کریں ہمیں معلوم ہے کہ آپ غالب اور غالب پر شائع ہونے والی ہر کتاب پر دل و جان سے محبت سے کرتے ہیں اور جب کسی کی محبت اس سے اوجھل ہو جاتی ہے تو یقیناًصدمے میں وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کتاب بازیافت ہونے کی خوشی میں کل دوپہر کا کھانا آپ دونوں میرے ساتھ کھائیں گے۔ مَیں نے کہا خان صاحب کتاب تو آپ کے گھر سے ہی برآمد ہوئی کاش آپ اپنے صوفے کے نیچے بھی دیکھ لیتے کہ وہاں بھی بے شمار کتابیں پڑی ہوئی ہیں۔ جس پر کہنے لگے آپ دونوں کو کھانا کھلانے کا بھی تو کوئی بہانہ چاہیے تھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے پرتو روہیلہ کی کلیات مکتوباتِ فارسی غالب کی ورق گردانی شروع کر دی۔ مَیں اور ابرار عبدالسلام ان کو دیکھ رہے تھے کہ وہ غالب کی اس کتاب کے مطالعے میں گم ہو گئے تھے۔ اگلے دن لطیف الزماں خاں کی ہدایت کے مطابق مَیں اور ڈاکٹر ابرار عبدالسلام ’غالب نما‘ میں کھانا کھانے پہنچ گئے۔ کھانا کھاتے ہی خان صاحب نے مجھے اور ڈاکٹر ابرار کو حکم دیا کہ سامنے بیسن پر جا کر آپ دونوں ہاتھ دھو لیں اور ان ہاتھوں کو تولیے سے صاف کر کے میرے پاس آ جائیں۔ مَیں نے خان صاحب سے کہا اس ہدایت نامے کی کوئی خاص وجہ ہے؟ کہنے لگے تم دونوں اپنے روغن والے ہاتھ میری کتابوں کو لگاؤ گے اور کتابیں خراب ہو جائیں گی۔ مَیں اور ابرار عبدالسلام اٹھے، بیسن پر جا کر ہاتھ دھونے لگے اور خان صاحب کی اس بات کا لطف لے کر دوبارہ ان کی باتیں سننے بیٹھ گئے۔
29 ستمبر کی سہ پہر رضی الدین رضیؔ نے پرتو روہیلہ کے گزرنے کی خبر دی تو مجھے غالب کے عاشق پروفیسر لطیف الزماں خاں بھی یاد آ گئے کہ یہ دنیا کتاب سے پیار کرنے والوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ عربی، فارسی تو بہت دور کی بات اب تو اُردو کتاب پڑھنے والے بھی خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ پرتو روہیلہ کے انتقال سے کتابوں سے محبت کرنے والے کا ایک عہد تمام ہوا۔ لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ ان کا تراجم کے حوالے سے جو کام ہمارے ہاں موجود ہے وہ زندہ رہے گا۔ اب عربی اور فارسی کے ذخیرے کو اُردو کے قالب میں ڈھالنے والے مشکل سے دکھائی دیتے ہیں۔ دور کیوں جائیں صرف ملتان میں اب فارسی زبان و ادب کی بنیادی باتیں پوچھنے کے لیے صرف دو ہی شخص موجود ہیں جن کو لوگ ڈاکٹر اسلم انصاری اور پروفیسر اصغر علی شاہ کے نام سے جانتے ہیں۔ بیس لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں فارسی کو جاننے والے اگر دو لوگ بھی موجود ہیں تو دس لاکھ لوگوں کے حصے میں ایک ماہرِ فارسی آتا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ وہ ملتان جو اپنے علم و فضل کے حوالے سے ماضی میں بڑی اہمیت کا حامل تھا آج ان دونوں شخصیات سے فارسی ادب کے متعلق پوچھنے والا بھی نہ ہو۔ بہرحال پرتو روہیلہ کا بچھڑ جانا اُردو ادب کا نقصان تو ہے ہی لیکن فارسی ادب کے حوالے سے ایک باب کا بند ہو جانا افسوس ناک خبر ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »