Qalamkar Website Header Image

پارا چنار کی تاریخ اور فکری تضادات (دوسرا حصہ) | شاہسوار حسین

پہلے حصے میں پاراچنار کی تاریخ سے بڑے اور اہم واقعات بیان کیے تھے اب قیامِ پاکستان کے بعد جو صورت حال اس وقت تک ہے اس پر بات کرتے ہیں.
پارا چنار میں جھڑپیں چاہے پانی اور راستے کے تنازعات پر شروع ہوئی یا جنگلات و اراضی پر لیکن کسی نہ کسی طریقے سے فرقہ واریت میں بدل گئیں۔ کبھی دیہات جلا دئیے گئے تو کبھی علاقوں سے نکال باہر کر کے ان کے مکانات اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ ان لڑائیوں میں اب تک پارا چنار اور اس کے اطراف کے علاقوں سے تقریباً پانچ سو سے لے کر سات سو کے قریب خاندانوں کو علاقہ بدر کیا جا چکا ہے جو ابھی تک اپنا ٹھکانہ کہیں نہیں بنا سکے ہیں۔
پچھلے پچاس سالہ فرقہ وارانہ جنگی تاریخ میں موجودہ دور بالکل مختلف ہے اس خانہ جنگی کی وجہ سے پاراچنار کا سیاسی اور معاشی نقشہ تیزی سے بدل گیا اور اس پس منظر میں مسائل سلجھنے کی بجائے الجھتے چلے گئے ۔عارف خٹک صاحب نے اپنی تحریر میں کئی چیزیں ایسی لکهی ہیں جو ہم پاراچنار کے باشندوں کو بھی معلوم نہیں ہیں. جس طرح انہوں نے ایران انقلاب کو پاراچنار میں لانے کی بات کی ہے تو میں چیلنج کر کے کہتا ہوں کہ کوئی وہاں جا کر دیکهیں کہ شیعہ ہونے کے باوجود آدھی آبادی اس وقت سے لے کر اب تک انقلاب ایران کے مخالف ہیں.علامہ عارف حسین الحسینی شہید کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت گہرے رہے ہیں میرے والد صاحب ان کے چچا سے دینی تعلیم لیتے تھے چونکہ سادات گھرانہ ہے تو میرے والد کا بچپن عارف حسین الحسینی کے ساتھ گزرا ہے، کلاس فیلو تهے اور یہ ان کے خاندان والوں سے آج بھی پوچھ لیں لیکن اس کے باوجود ہم آج تک انقلاب ایران کے حامی نہیں.کیونکہ ہمیں ایران سے کیا لینا دینا؟ ہمیں پتہ ہے کہ آج ایران جا کر دیکھ لیں بغیر ویزے کے لات مار کر نکالتے ہیں . اسی طرح سعودی عرب بھی ہے لاکھ آپ کوشش کریں آپ کو نہیں رکهیں گے. ہمیں جینا مرنا پاکسان میں ہے پاکستان کی مٹی کو سوائے مقدس مقامات کے باقی ہر ملک سے عزیز سمجھتا ہوں. لہذا یہ ایرانی ایجنٹ وغیرہ ایک چورن بیچنے کے سوا اور کچھ نہیں.
اسلحے کی ترسیل کے بارے میں مکمل مفروضے پر مشتمل بات کی ہے غزنی اور پاراچنار کے درمیان فاصلہ دیکهیں بیچ میں اتنی بڑی اہل سنت آبادی، تو پھر یہ اسلحہ پہنچا کیسے؟ اور موصوف کو شاید معلوم نہیں کہ افغان جنگ سے پہلے پورے پاراچنار میں انگریز کی دی گئی رائفلز کے سوا کچھ اسلحہ نہیں تھا. یہ تو 1987ء کی جنگ کے بعد ہی عوام نے حفاظت کے لیے خریدا.

https://qalamkar-pk.stackstaging.com/wp-content/uploads/2017/07/para-gilgit.png?resize=878xC300

یہی بات گلگت اور پاراچنار کو ایک صوبہ بنانے کے بارے میں ہے گلگت کا پاراچنار سے 820 کلومیٹر فاصلہ اور وە بھی براہ راست نہیں بلکہ اہل سنت کی آبادی ٹل، کوہاٹ، پشاور ،مردان، مینگورہ سے ہوتے ہوئے کاغان اور چترال کے بعد گلگت آتا ہے نہ سرحد نہ قریبی فاصلہ، کوئی جغرافیائی حدود نہیں تو پتہ نہیں یہ صوبہ کیسے بن رہا تھا؟ میں تو سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ کسی ان پڑھ شخص سے بھی اگر کہہ دوں تو وە مجھے پاگل ہی سمجھے گا اور ثبوت کوئی نہیں بس فقط ہم مسلک ہونے کی بنا پر مفروضہ قائم کیا ہے اگر ہنگو کا کہتے تو بھی بات میں کچھ دم ہوتا.
پاراچنار کی جن جنگوں کا ذکر کیا ہے اس میں عالمشیر (جوکہ میرا گاؤں ہے) اس میں شیعہ سنی جنگ کا بھی لکھا ہے میری فرینڈ لسٹ میں ایک میرا اہل سنت دوست جو میرے ہی گاؤں میں رہ کر جوان ہوا ہے ان سے بھی پوچھ لیں کہ عالمشیر گاؤں میں کوئی اہل سنت آبادی ہی نہیں زمینی سرحد بھی کسی اہل سنت آبادی سے نہیں ملتی تو شیعوں نے سنیوں کو مارا کہاں پر اور کیسے؟ جبکہ خود ہمارے خاندان نے 18 افغان سنی خاندانوں کو روس جنگ کے دوران پناہ دی تھی میرے دادا مرحوم نے مٹی کے نئے کمرے بنا کر دیئے کہ مسافر ہیں حالت جنگ میں ہیں بچے، خواتین اور بوڑھے بے چارے کہاں جائیں گے؟
جنگوں کی تفصیل
پہلی جنگ 1961ء میں ہوئی تھی ماتمی جلوس پر فائرنگ کی گئی 90 شیعہ قتل کر دیئے گئے. جس وقت انقلاب ایران کا نام و نشان تک نہیں تھا
دوسری جنگ 1971ء میں مسجد کے مینار کی تعمیر کے سبب ہوئی. شیعہ لوگوں نے جاجی قوم کو مسجد کے لئے شہر میں جگہ دی کیونکہ طوری قبیلہ جاجی کو بھائی سمجھتا رہا ہے (جاجی ، طوری آپس میں چچا زاد بھائی تھے ) لیکن مینگل قبیلے نے مینار کو 150 میٹر بلند کر کے اس میں مورچے بنائے تو اس بات پر کشیدگی ہوئی تو اسی مینار سے فائرنگ کی ابتدا کی گئی 35 شیعہ قتل ہوئے.
تیسری جنگ 1981ء میں ہوئی صدہ شہر کے سادات کے گھر جلائے گئے اور ایک ہی خاندان کے 18 افراد کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا مردوں کے سامنے عورتوں کی چهاتیاں کاٹی گئی اور دو ماہ کے معصوم بچے کو جھولے سے اٹھا کر ذبح کیا گیا اور پهر باقی سب مردوں کو بھی جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا. آج تک ان کی املاک و جائیداد پر وە قابض ہیں.
چوتھی بڑی خونریز جنگ جو مجھے کل کی طرح یاد ہے 1987ء میں ہوئی جس میں ضیاءالحق نے باقاعدہ طور پر مجاہدین سے کہا تھا کہ پاراچنار کو کریش کرو. سات بڑے بڑے گاؤں لوٹ کر جلائے گئے گهروں کی چهتوں پر شہتیر تک نہیں چهوڑے گئے تھے. دسیوں لوگ قتل ہوئے. جب لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب بچنے کی کوئی امید نہیں تو سب نے گهروں سے نکل کر موت کو ترجیح دی اور جنگ کو پلٹا کر مجاہدین کو پسپا کر دیا گیا.
پاراچنار میں جتنی نفرت اور آگ و خون کی ندیاں ضیاءالحق کے دور سے لے کر آج تک بہائی گئی ہیں ان کی مثال نہیں ملتی. 1987ء کی جنگ کی تباہی و بربادی کے بعد لوگوں کو یقین ہوا کہ ان کے پاس جدید ہتهیار ہیں اور ہم مقابلہ نہیں کر سکتے. جب روس افغانستان سے نکل گیا تو افغان لوگوں نے اسلحہ بیچنا شروع کیا اور یہ شیعہ کمیونٹی کی طرف سے نہیں بلکہ اہل سنت کے لوگوں نے لا کر دیا کیونکہ مینگل قبائل کے ساتھ ان کی بھی جهڑپیں ہوتی تھی.
پانچویں بڑی جنگ 1996ء میں شروع ہوئی جب اسکول کے بلیک بورڈ پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے والد ماجد حضرت ابو طالب کے بارے میں توہین آمیز کلمات لکھے گئے تھے اسکول کے پرنسپل رضی شاہ کو قتل کیا گیا اور 12 دن طویل جنگ ہوئی جس میں 60 سے زائد افراد قتل اور سینکڑوں زخمی ہوئے.
چهٹی خونریز جنگ اپریل 2007ء میں شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے اس کی ابتدا بھی تکفیری ٹولے کی طرف سے تھی 12 ربیع الاول یکم اپریل 2007ء کے عید میلاد النبی میں نعوذ باللہ حسین مردہ باد یزید زندہ باد کے نعرے لگائے گئے.
6 اپریل 2007ء سترہ ربیع الاول کو جب شیعہ عید میلاد النبی منا رہے تھے میں چشم دید گواہ ہوں اگر جهوٹ بولوں تو قیامت میں اللّٰہ کبھی نہ بخشے جب مسجد سے شیعہ جلوس پر ہینڈ گرینیڈ پھینکے گئے اور فائرنگ شروع کر دی گئی مسجد میں طالبان جنگجو موجود تھے جو کئی دنوں سے مختلف علاقوں سے بعض تکفیری ذہن مقامی لوگ ان کو لائے اور گهروں میں پناہ دی تھی پاراچنار کو مکمل طور پر طالبان کےکنٹرول میں دینے کا پلان تھا بیت الله محسود جیسے طالبان کمانڈر نے خود اس جنگ کی کمان سنبھال لی تھی.
اس وقت پاراچنار کی حالت غزه سے زیادہ بد تر تھی کھانے پینے کی اشیا، دوائیاں حتیٰ کہ آگ جلانے کی ماچس سے لے کر روشنی کے لئے موم بتیاں تک نہیں مل رہی تھی رات کو ہر طرف قیامت خیز اندھیرا، طالبان کے پے درپے حملے ، بھاری ہتهیاروں کی گرجتی آوازیں، زخمیوں کی سسکیاں اور بچوں عورتوں کی وە چیخیں قبر میں بھی نہیں بھول سکتا اور دسمبر کی اس سخت رات کو بھی نہیں جب نعرے بلند ہوئے کہ ہم نے تمہاری بے نظیر بھٹو کو مار دیا. ریڈیو آن کر کے پتہ چلا کہ واقعی بی بی شہید کر دی گئی ہیں اس رات ہم پہ غم مزید شدت سے ٹوٹ پڑا تھا اور وە حملوں پہ حملے کرتے رہے.
ہماری حکومت تب تماشائی بنی دیکھتی رہی، ہر طرف موت کا رقص ہو رہا تھا باتیں کرنا اور تحریر لکھنا آسان ہے لیکن انسانوں کی بهیڑ میں بے یار و مددگار رہ کر خونخوار درندوں کے موت کا رقص دیکھنا قیامت سے کم نہیں.
یہ تو بڑی بڑی جنگوں کی تاریخ ہے چهوٹی چهوٹی جنگوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا اور اب تک دهماکوں اور راستوں میں جتنے لوگ قتل ہوئے ہیں وە ایک الگ ظلم کی داستان ہے

یہ بھی پڑھئے:  زندان کی چیخ ۔سترہویں قسط

جاری ہے۔۔۔

پہلے حصے کے لئے یہاں کلک کریں

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

بنی اسد

10 محرم سے لیکر 13 محرم تک امام حسینؑ، آپ کی اولاد، بھائی، اعوان و انصار کے اجسامِ مطہر زمینِ کربلا پر بے گور و کفن بکھرے ہوئے تھے۔ 13

مزید پڑھیں »

اردو کے ہندو مرثیہ گو شعراء

اردو مرثیہ نگاری میں ہندوستان کے ہندو شعرا کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاتا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو ایک سیکولر زبان ہے۔ اوریہ اردو

مزید پڑھیں »