فاٹا سات ایجنسیوں پہ مشتمل ہے (کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، خیبر ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، مہمند ایجنسی، جنوبی اور شمالی وزیرستان )
پاراچنار کرم ایجنسی کا صدر مقام اور ہیڈ کوارٹر ہے پاراچنار سے پہلے کرم ایجنسی کے جغرافیے اور حالات کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ پاراچنار تو ایک شہر ہے پرانا تاریخی تجارتی مرکز ہے.
پاراچنار کو پشتو زبان میں پاڑا چنار بھی کہتے ہیں پارا چنار کا مطلب پارا یا کٹا ہوا چنار جبکہ پاڑاچنار کا نام اس وجہ سے پڑ گیا تھا کہ پاڑہ چمکنی قبیله اس درخت کے نیچے جرگے وغیرہ کیا کرتے تھے تو اس درخت کے جگہ کا نام پاڑاچنار پڑ گیا لیکن جس وقت یہ افغانستان کے ماتحت تھا اس وقت پاراچنار کا نام طوطکی تھا یعنی طوطے کی چونچ. چونکہ پاراچنار تقریبا 80 کلومیٹر افغانستان کے اندر پھیلی ہوئی وادی ہے اور اگر نقشے پر دیکھا جائے تو بالکل چونچ کی طرح دکھائی دیتی ہے اس وجہ سے یہ نام (طوطکی ) دیا گیا تھا.
اس سے پہلے کہ پاراچنار کا ذکر کریں پہلے کرم ایجنسی کی تاریخ دیکھنی پڑے گی چونکہ اب پورے ایجنسی کو لوگ پاراچنار ہی سمجھتے ہیں بلکہ لکھا بھی جاتا ہے .
کرم یا کرومہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے رگ وید میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور یہ وادی ایک دریا کے کنارے آباد ہے جس کو دریائے کرم کہتے ہیں دریائے کرم افغانستان کے گردیز کے پہاڑوں سے متصل 50 میل دور کوہ سفید کے جنوبی حصے سے نکل کر علاقہ کرم ایجنسی کے زمینوں کو سیراب کرتے ہوئے ٹل بلند خیل شاخ سے ہوتا ہوا بنوں اور آگے میانوالی عیسٰی خیل میں داخل ہوتا ہے .
کرم ایجنسی کا رقبہ 3310 مربع کلومیٹر اور 1998ء کے مردم شماری کے مطابق کل آبادی 448،310 ہے شمال میں کوہ سفید افغانستان کے صوبے جلال آباد ، شمال مغرب میں کابل، جنوب مغرب میں پکتیا اور جنوب میں خوست کے ساتھ سرحد ہے. آباد قبیلے بنگش ،طوری، جاجی، پاڑہ چمکنی، اورکزئی، مینگل اور اقلیتی ہندو، سکھ، عیسائی ہیں
مغل بادشاہ جہانگیر کو یہ علاقہ بہت پسند تھا اور اس نے یہاں باغات بھی لگائے تھے . بابر نے اپنے سوانح عمری 1506ء میں طوری قبیلے کا ذکر کیا ہے طوری (طورس ) شیعہ جبکہ اس کا چچا زاد اہل سنت جاجی (زازک ) 1500 عیسوی میں ترک سے آ کر پہلے آریوب اور پکتیا میں آباد تھے اور طوری قبیلہ پاراچنار میں آ کر آباد ہوا یہاں پہلے سے آباد بنگش قبیلے سے لڑائیاں لڑی ہیں اور ٹل تک کا علاقہ طوری قبیلے کے قبضے میں آ گیا تھا کئی بعد میں زمینوں کے مالیے اور ٹیکسوں کے سبب جنگیں افغانستان کے ساتھ لڑی گئی ہیں.
یہاں چند چیزوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو موجودہ لکھی گئی تاریخ ہے اس کے مطابق طوری شیعہ 1500ء میں آئے ہیں لیکن دوسری طرف اگر سینہ در سینہ تاریخ دیکھی جائے تو شیعہ اس سے بھی قبل موجود تھے
ان کا واضح ثبوت سید شاہ شرف الدین المعروف بو علی شاہ اور سید حسن کے پدر بزرگوار سید ابوالحسن امام زادے کا مزار اور اولاد ہیں جو گیارہویں صدی عیسوی میں مدینہ منورہ کوچہ ہاشمی سے نجف (عراق) پھر (ایران) خسروی، کرمانشاہ، ہمدان، کرمان ماحان، خراسان میمہ (جہاں آپ کے والد محترم حضرت السیّد ابوالقاسم یحییٰ کا مقبرہ ہے) سے (افغانستان) ہرات، بلخ (مزار شریف) سے سالنگ راستے سے ہو کر کابل، ولایت لوگر اریوب سے ہوتے ہوئے پارہ چنار، کرم ایجنسی (جس کا پرانا نام طلا و خراسان تھا) کے ایک گاؤں کڑمان (قدیمی نام کرمان) میں ہمراہ دو فرزند حضرت السیّد شاہ انورؒ اور حضرت بو علی شاہ قلندرؒ آباد ہوۓ۔ بڑے بیٹے حضرت السیّد شاہ انور پاراچنار جبکہ دوسرا بو علی شاہ پدر بزرگوار کی وصیت کے مطابق اُنکے وصال کے بعد ہمراہ ایک پوتے غوث ہندوستان پانی پت تشریف لے گئے۔
تو اس اندازے کے مطابق گیارہویں صدی عیسوی میں ہی شیعت اس علاقے میں داخل ہو چکی تھی.
طوری نے وزیر اور خٹک قبیلے کے ساتھ جنگیں لڑی ہیں. خٹک قبیلے سے نمٹنے کے لیے طوری قبیلے نے باقاعدہ آغاز کیا اور خٹک قبیلے کو پے در پے حملوں سے شکست دی تو انگریز حکومت نے 1854ء میں مداخلت کر کے کوہاٹ کے مقام پر معاہدہ کر کے طوری قبیلے کو مزید پیش قدمی سے روک دیا لیکن کبھی کبھی طوری قبیلہ خٹک قبیلے کے خلاف کارروائی کرتا رہتا اور جب 1856ء میں کارروائی تیز کردی تاکہ کوہاٹ تک علاقے کو امیر افغانستان کے ماتحت کیا جائے تو انگریز حکومت نے مزاحمت کی اور طوری قبیلے پر مبلغ 8،638 روپے رائج الوقت جرمانہ عائد کیا. اور یہ واقعات انڈیا گزیٹر تاریخ کا حصہ ہے .
پاراچنار چونکہ افغانستان کے ماتحت تھا اور کابل کے تخت کے ساتھ اکثر اوقات کئی جنگیں ہوتی تھی جب 1877ء میں کرم ایجنسی کے گورنر شہباز خان نے طوری شیعہ قبیلے سے 50،000 روپے (پانچ روپے ہر بالغ عورت پر ) بطورِ ٹیکس اور انگریز حکومت کے خلاف چھ ہزار جنگجو مانگے تو طوری قبیلے نے ادا کرنے سے انکار کر دیا لیکن جب شہباز خان کو کابل کے امیر نے واپس بلا لیا تو طوری قبیلے نے ایک جرگہ افغانستان بھیج دیا اور 25،000 روپے ادا کر کے خود کو محفوظ کیا.
1878ء میں دوسری افغان برٹش جنگ شروع ہوئی تو پاراچنار کے طوری قبیلے نے برٹش کا ساتھ دیا اور 1880ء میں پاراچنار کا علاقہ افغان حکمرانوں کے تسلط سے آزاد کر دیا لیکن لڑائیوں کا سلسلہ روکتا نہیں تھا بار بار افغانستان سے حملے ہوتے تھے. 1892ء میں پاراچنار باقاعدہ انگریز حکومت کے ماتحت آ گیا انگریز حکومت کو خود دعوت دی تھی تاکہ خود کو افغانستان اور دیگر قبائل سے تحفظ مل سکے.
پورے سات ایجنسیوں میں دو ہی ایجنسیوں میں شیعہ آباد تھے کرم اور اورکزئی ایجنسی. اورکزئی ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر تیراہ کلایا کہلاتا ہے جہاں بو علی شاہ قلندرؒ کی اولاد اور دیگر سادات آباد ہیں. پاراچنار کے ساتھ ساتھ تیراہ کلایا کی تاریخ اس سے بھی زیادہ خونریز ہے. وہاں بھی تقریبا تین سو (300) سالوں سے شیعہ سنی لڑائیاں ہوتی رہی ہیں اور چاروں طرف سے یلغار کی جاتی تھی. چونکہ شیعہ بہت اقلیت میں تھے تو ہر بار جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے.
چھ بڑی جنگوں میں چھ بار شیعہ و سادات کے گھر جلائے گئے ہیں اور بہت قتل عام کیا گیا ہے ۔
سادات کے گھر چھ بار لٹ گئے تھے جلائے گئے تھے اور کئی جوان سادات کو بے دردی سے شہید کیا گیا تھا اور مطالبہ یہی تھا کہ ماتم حسین نہیں کرنا اور شیعیت کے طور طریقوں کو چهوڑ دیں
حسینی سادات کے جد امجد سید میر انور شاہ کا سر کاٹ کر لے گئے تھے اور چھ ماہ بعد واپس لینے میں کامیاب ہوئے تھے. ان چھ جنگوں میں نشانہ سادات بنتے تھے کیونکہ کلایا کے سنیوں کا کہنا تھا کہ شیعہ مذہب کے پھیلانے میں یہ حسینی سادات کا ہاتھ ہے اور دشمنی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب سید میر انور شاہ کا ذاتی دشمن اور تیراہ و پشاور کے نواب جناب قنبر علی خان رح نے سید کے ہاتهوں بیعت کر کے شیعہ مذہب اختیار کیا.
قنبر علی خان رح نے اہلبیت اور اپنے مرشد سے صوفی شاعری کے ذریعے اظہار کیا ہے لوگ سید سے زیادہ ان کے دشمن ہو گئے تھے اور ان کا پشتو شعر سچ ہی ثابت ہوا جس کا مفہوم یہ ہے ( میں عشق کی راہ پر بے خبر چل رہا تھا کچھ خبر نہ تھی تیرے عشق کے اثر کا، اب تیرے عشق میں اپنے سر سے گزر گیا ہوں اگر میرے سر پر بردتے پتهروں کا مینار ہی کیوں نہ بنے) اور وہی ہوا خٹک قبیلے نے پشاور میں ان کو سنگسار کر دیا.
قیامِ پاکستان کے وقت پاراچنار نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور یوں پاراچنار پاکستان کے قبائلی ایجنسیوں میں سے ایک ایجنسی بن گئی۔
جاری ہے۔۔۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn