Qalamkar Website Header Image

قبائلی عوام، عدم برداشت

ہمارے قبائلی معاشرے میں عدم برداشت پہلے سے بھی تھی لیکن چند سال مسلسل دہشت گردی کے طویل جنگ میں لوگوں نے اتنا خون خرابہ اور لاشیں دیکھیں کہ اب قتل کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں جو کہ بہت ہی خطرناک بات ہے دوسری طرف سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی طاقت ور کے ساتھ غریب یا سرکاری طور پر کمزور انسان کا مقدمہ درپیش ہو جائے تو طاقتور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مخالف کمزور لوگ سرکاری طور پر کچلے جاتے ہیں ایک فون کال پر مخالف کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر ان کو دستبردار کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے یا سالوں سال جیل میں سڑتا ہے کوئی پرسان حال نہیں ہوتا.
مقامی انتظامیہ انگریز سرکار کی طرح ہے جس کے خلاف بات کرنا بھی عظیم جرم ہے. جب کوئی غریب و کمزور انسان اس مرحلے سے گزرتا ہے اور اس کا قانون پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے تو وه انتقام پر اتر آتا ہے اور انتقام پھر یہی ہے کہ بندوق اٹھا کر مخالف کی زندگی کا خاتمہ کرتا ہے بعض اوقات تو یہ بھی نہیں دیکھتا کہ مخالف کے خاندان سے کتنوں کو مارنا ہے کئی واقعات میں ایک سے لے کر تین چار افراد تک بھی مارے گئے ہیں.

اگر حکومت درست اقدامات کرتی انصاف سے کام لیتی تو کافی حد تک جرائم کم ہو سکتے ہیں لیکن حکومت کی کرسی پر بیٹھے فرعونوں کو پیسے سے مطلب ہے اور پیسہ بغیر مقدموں کے آتا نہیں. غریب کی کھال اتارتے ہیں بااثر افراد کے لئے اپنی کرسی بھی چھوڑ دیتے ہیں. سارا الزام میں ایڈمنسٹریشن کو دیتا ہوں جنہوں نے قبائلی عوام کو غلام بنا رکھا ہے اور اس غلام معاشرے میں قانون طاقت ور کے پاوں کی جوتی برابر بھی نہیں اور غریب و کمزور لوگوں کے لئے موت سے کم نہیں.

یہ بھی پڑھئے:  پنجاب کا پہلا مزاحمتی کردار تنہا نہ چھوڑنا | اکرم شیخ

جن خاندانوں کے افراد پولیٹیکل انتظامیہ کے ساتھ نوکری میں ہیں ان کے مقابلے میں مقدمہ جیتنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اور اگر کسی کا کوئی کسی ادارے یا ایجنسی میں اعلیٰ عہدے پر حاضر سروس ہو یا مقامی پولیٹیکل انتظامیہ کے لئے جاسوسی کی نوکری پر ہو تو ان لوگوں کے ساتھ مقدمہ درج کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے ورنہ بعد کے نتائج کا آپ خود ذمہ دار ہوں گے. قبائلی لوگ اب وہ صدیوں پرانے لوگ نہیں رہے نوجوان نسل نے تعلیم حاصل کی باہر کی دنیا دیکھی. باہر کے عوام کے سہولیات سے لے کر قوانین تک سب کچھ دیکھ لیں اور پھر اپنے ملک پاکستان کے اندر تقریباً تمام علاقوں میں قوانین دیکھے تو ان میں مایوسی پھیل رہی ہے اس ظلم و جبر کے قوانین سے نفرت کرتے ہیں جو صدی قبل انگریز سامراج نافذ کر چکا تھا.

قبائلی عوام نے انقلاب افغانستان کی جنگ سے ملی بربادی دیکھ لی پھر طالبان کے خلاف جنگ کے ایک طویل عرصے میں تباہی و بربادی دیکھ لی. ذبح شده سربریدہ لاشیں، دھماکوں سے انسانی جسموں کے بکھرے اعضا اور جلی کٹی لاشیں دیکھ لیں اب لوگ اس وحشت ناک وقت سے نکلنا چاہتے ہیں جنگی مشقوں کی آماجگاہ کی بجائے سیاسی و جمہوری نظام چاہتے ہیں تعلیم، صحت، سڑکیں اور دیگر سہولیات چاہتے ہیں. اگر ان کو سہولیات ملے یا کم از کم قوانین کی شکل میں حقوق ملے جو باقی عوام کو حاصل ہیں تو کافی حد تک تبدیلی آ سکتی ہے ورنہ عام لوگوں کی ذہنیت یونہی دہشتگردی کے کام آئے گی ان کو استعمال کرنا آسان ہوگا.

یہ بھی پڑھئے:  عمران خان بمقابلہ احمد لدھیانوی

ایسے میں ان کے سروں پر آمر کی طرح ایک پولیٹیکل انتظامیہ مسلط کی جاتی ہے اور اس کے فیصلوں کے خلاف کسی کو اپیل کرنے کا بھی حق نہ ہو تو کچلے ہوئے لوگوں کے دلوں میں غصہ اور نفرت لاوے کی طرح اگلنا شروع ہوتی ہے جو کسی نہ کسی صورت میں بربادی لاتی ہے اور کسی دن یہ بربادی بڑے پیمانے پر بھی پھیل سکتی ہے. اب حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنا جلدی اس طرف توجہ دے کر لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں یا ان زخموں کے ناسور ہونے تک انتظار کرتے ہیں. قبائلی عوام کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا ورنہ جو بربادی اب تک دہشتگردی سے ہوئی ہے اس سے زیادہ اور آ سکتی ہے. جوش و جذبات کے فیصلے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں اور انجام بہت بھیانک نتائج پر ختم ہوتا ہے.

حالیہ بلاگ پوسٹس