امریکا ماہرِ نفسیاتِ امتِ مسلمہ ہے۔ انتخابات میں وه دو قسم کے امیدوار کھڑے کرتا ہے۔ ایک مسلم مخالف اور دوسرا شہد میں زہر گھول کر پلانے والے دوست کی شکل میں۔
ان کا چناؤ پہلے سے باقاعدہ طے شدہ ہوتا ہے جو کہ شہد میں زہر گھول کر پلانے والے کو ہی صدر بننا ہوتا ہے بس ذرا مسلم امہ کے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر چھیڑ چھاڑ کرنے میں ان کو تفریح کا سامان بھی فراہم ہوتا ہے اور الیکشن پہ اخراجات کا کچھ حصہ بهی امہ سے وصول کرتے ہیں۔
اب ان کو امہ کے مرض کا پتہ ہے کہ مخالف کے حریف کے یہ حمایت کرے گی اور اس کے کامیابی کے لئے سرمایہ کاری بهی کرے گی اور امہ کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کہیں مسلم دشمن امیدوار اقتدار میں نہ آئے ورنہ پتہ نہیں کیا کرے گا امہ کے ساتھ۔ لیکن حقیقت میں جو کچھ کرنا ہوتا ہے وه امہ کے دوست کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔
جب بهی کوئی امیدوار مسلم امہ کے خلاف انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے تو امہ ماسک پہنے زہریلے دوست کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرتی ہے۔ اخلاقی حمایت کے ساتھ ساتھ مالی امداد تک کرتی ہے کہ کہیں وہ کهلم کھلا مسلم دشمن امیدوار اقتدار میں نہ آئے۔
امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ دیکھ لیجیے، جتنے بھی صدارتی امیدوار امریکی الیکشن کے تاریخ میں کھڑے تهے ان میں سے کون کون امہ یا کسی ایک ملک یا جنگوں کے حامی تھے؟ ان میں ہارے کون ہیں جیتے کون ہیں؟
بہت پرانی نہیں بلکہ 1989ء سے دیکھ لیں۔ 89ء کی الیکشن مہم میں جارج ایچ ڈبلیو بش کی تقریریں دیکھیں ( امریکی عوام کو ایک نئی پر امن زندگی، جنگوں کا خاتمہ، امریکہ اور باقی اقوام عالم میں دوستی پہ مبنی پالیسیاں وغیرہ وغیرہ)۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد عراق کا کویت پہ حملہ آور ہونا اور مدد کا ڈھونگ رچا کر عرب کی سرزمین پر امریکی قبضے سے اس کھیل کا افشاں ہونا۔
جب بش کا جنگی جرم دنیا کے باقی ممالک نے بے نقاب کیا، امریکہ کے ساکھ پہ دھبہ لگا تو اب امریکہ کو آئندہ انتخابات میں نیا صدر سامنے لانا پڑا اور 1992ء اور 96ء میں دو بار بل کلنٹن صدر منتخب ہو کر 2000ء تک رہے۔ کلنٹن کے دو بار صدر رہنے کے بعد پهر جارج ایچ ڈبلیو بش کے بیٹے جارج ڈبلیو بش کو 2000ء میں صدر منتخب کیا گیا۔ 2001ء میں 9/11 کے واقعے کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس کھیل سے تباہ کن جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ابهی تک جاری و ساری ہے۔
اسی طرح 2008 ءمیں امریکی انتخابات میں پهر وه موڑ آیا کہ ایک طرف ابامہ کی جنگ کے خاتمے، عراق اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء جیسی تقریریں تھیں اور دوسری جانب حریف امیدوار میٹ رومنی کی بعض اوقات پاکستان مخالف تقریریں تھیں۔ یہاں تک افواہیں پھیلا دی گئی کہ کسی نے اوباما کو مسلمان تو کسی نے حسین نام کے ساتھ مسلکوں سے بھی جوڑ دیا تھا۔
نتیجہ وہی نکلا کہ امہ کو شہد میں زہر گھول کر پلانے والا صدر بنا اور سب نے دیکھا کہ فوجیں افغانستان اور عراق سے بظاہر تو نکل گئیں لیکن عرب دنیا میں جو انقلابات اور تباہی و بربادی کے نت نئے تجربات کیے گئے وه تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ پورے عرب میں ایک نا ختم ہونے والی عرب سپرنگ آج بھی جاری ہے۔
اب 2016ء کے انتخابات میں پهر وہی سب کچھ ہے وہی لکھی ہوئی سکرپٹ ہے کچھ نئے چہروں پر ماسک پہنا کر پهر سے سب کو الو بنانے کا کھیل جاری ہے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ ہیلری کلنٹن کا چناؤ پہلے سے باقاعدہ قرار پایا ہے بس امہ کی سرمایہ کاری کے لئے ٹرمپ نامی اداکار کو سٹیج پر لایا گیا ہے۔ اور ہیلری کلنٹن کے عرب سپرنگ میں کردار بهی سب کو معلوم ہے لیکن مخالف امیدوار انڈین فلموں کے ولن اداکار امریش پوری کی طرح ہیبت ناک ہے اور امہ کو شکل و صورت اور گفتار سے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور اصل ولن ماسک پہنے ہوئے پهر سے ہمیں برباد کرنے کے لئے ہمارے ہی بیچ میں گھومتا پھرتا رہا ہوگا۔
ایک اور اہم بات: امریکی جب بهی کسی نئے میدانِ جنگ میں اترنے کا سوچتے ہیں تو پہلے وہاں کے ماحول میں تبدیلی لاتے ہیں۔ 1979ء میں شاه ایران کے حکومت کا خاتمہ، شاه ایران کے حمایتیوں کی طرف سے شدید مخالفت، ایرانی انقلاب میں تیزی لانے کے لئے ایرانیوں کا ایک ہونا بہت ضروری تھا تو اسی سال اپنے عراقی بخشو سے ایران پر حملہ اور ایرانی قوم کا انقلاب سے توجہ ہٹانے کے لئے محاذ پر روانگی واجبات میں قرار پائی۔
پاکستان میں بھٹو کی پھانسی اور مارشل لاء کا نفاذ اور اسی سال افغانستان میں مسلمانوں کو جہاد کے نام پر روس کے خلاف بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ مجاہدین کی تربیت اور مالی امداد وغیرہ وغیرہ۔ 2000ء میں پهر پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ اور ایک بار پهر خود 2001ء میں افغانستان پہ حملہ آور ہونا۔
انشاءاللہ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو طول عمر مع صحت و سلامتی عطا فرمائے تو اس بار ہیلری ہی صدر بنی ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی شہد میں زہر گھول کر پلانے والے صدر ہوں گے اور حریف ایک مسلم مخالف ولن ہوگا جو انتخابات کے آخری مراحل میں ایسی گفتگو اپنائے گا کہ بظاہر وہی اس کی ناکامی کا سبب قرار دیا جائے گا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn