” ماں حیدر بھائی کو کیوں مارا گیا ؟ ” حیدر کے چھوٹے بھائی نے ماں سے سوال کیا۔
” وه کہتے ہیں حیدر نام کیوں رکھا ہے ” حیدر کے قبر کے پاس ماں نے آنسو پونچھ کر جواب دیا۔
"ماں وه مجھے بھی ماریں گے کیا ؟ بندوق سے ماریں گے یا دھماکے سے یا گاؤں کے اس سپاہی کی طرح چھری سے سر کاٹیں گے؟ ” ماں کے گود میں سہم کر سوال پہ اب سوال پوچھنے لگا۔
"شاید وہ تمہیں بھی ماریں لیکن پتہ نہیں کیسے اور کس طرح سے ۔ ایک کام کرتی ہوں تمہارا نام بدل دیتی ہوں ٹھیک ہے نا؟ ”
” کیا نام بدلنے سے بچ جاؤں گا؟ ” ماں کی طرف گھور کر دیکھنے لگا اور اس کے چہرے پر خوف کے سائے چھائے ہوئے تھے۔
"ہاں شاید اس طرح تم کو بچا سکوں حیدر کو تو نہ بچا سکی”
اس وقت وه بے بس ماں یوں لگ رہی تھی جیسے دنیا بھر کے دکھ درد کو مصور نے ایک بے جان تصویر میں قید کر رکھے ہیں ۔
” اچھا ماں میرا نام نا میرے کلاس فیلو کے نام پر جوزف رکھ دیں "
” ہاں یہ ٹھیک رہے گا پھر سوچتے ہوئے بولی نہیں نہیں ، یہ ٹھیک نہیں پھر مجھے تیری بہن کا نام بھی تو بدلنا ہوگا اگر اس کا نام ماریہ رکھ لوں تو شاید کسی لڑکے کی ہوس کا نشانہ بنے اور الزام کسی توہین کا لگے ۔ نہیں نہیں ، میں راج کمار رکھتی ہوں ۔ لیکن تیری بہن کا نام کماری رکھ لوں تو کل کو کسی لڑکی کے ساتھ سکول میں کسی چیز پر جھگڑا ہوجائے تو پھر وہی الزام لگایا جائے گا ۔ ”
ماں نام سوچتی رہی اور بیٹا بول پڑا
” ماں پھر میرا نام گل خان رکھ لو ”
” نہیں نا پگلے ، کل کو اگر حکومت نے لوگوں کی زبان بند کرنے کے لیے چھوٹے موٹے دہشت گردوں کو جیل میں قید کرنا چاہا یا پولیس مقابلے میں مارنا چاہا تو تم جیسے عام آدمی کو ہی قید یا مار ڈالیں گے ۔”
ایسا کرتی ہوں تیرا نام ” بے نام ” یا ” گمنام ” رکھتی ہوں۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ تو کون ہے۔
” لیکن ماں ان کو نام سے کیا تکلیف ہے؟ "
بیٹا تکلیف نام سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ جڑی ہوئی خاندانی فرقہ اور مسلک ہے۔ اس ملک میں ایک دین نہیں نا، یہاں تو اب تہتر کے بجائے ایک سو تہتر فرقے بن گئے ہیں۔ کسی بھی فرقے سے ہو ایک نہ ایک دن کوئی مار ہی دے گا۔
"ماں کیا سب کو اللہ میاں نے پیدا نہیں کیا ہے؟”
نہیں بیٹا، اس دنیا میں کسی کو اللہ ، کسی کو خدا ، کسی کو رام ، کسی کو گاڈ ، کسی کو جیسس ، کسی کو یزداں اور پتہ نہیں کتنوں کتنوں نے پیدا کیا ہے ۔ اب جس کو اللہ کے سوا کسی اور نے پیدا کیا ہے ان کو یہ مارنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں یہ غلطی سے پیدا ہوا ہے ۔ یہ ہمارے اللہ نے پیدا نہیں کیا ہے ۔
” لیکن ماں استاد تو کہتا ہے کہ زمین و آسماں اور ساری مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا ہے ”
بیٹا یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم سب یہ کہہ کر فقط فخر کرتے ہیں کہ ہمارے اللہ نے سب کو پیدا کیا ہے جبکہ مارنے کا اختیار ہم انسانوں نے لیا ہے کہ مارو اور کاٹو ۔ اگر اللہ نے پیدا کیا ہوتا تو میرا حیدر نہ مارا جاتا ، گل خان نہ مارا جاتا اور کماری و ماریہ سنگسار نہ ہوتیں ۔
” ماں پھر تو اللہ میاں کو چاہیے نا کہ سب کو ایک جیسا پیدا کریں پھر تو یہ جھگڑے اور ایک دوسرے کو ماریں گے نہیں نا؟ ”
بیٹا اس کا میرے پاس جواب نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے ہم سب اپنی مرضی سے تو کسی فرقے مسلک کے گھروں میں پیدا نہیں ہوئے ہیں نا۔
” ماں اگر مجھ سے میری مرضی پوچھی جاتی نا تو جس زمین پر پیدا کرتا میں اسی زمین کے دین اور مسلک کا کہتا کہ مجھے ویسا پیدا کریں پھر مجھے نہیں مارتے اور میرا حیدر بھائی بھی نہیں مارا جاتا ۔ میرا بھائی تو سبزی بیچتا تھا ۔ ”
بیٹا چلو گھر چلتے ہیں حیدر اب یہیں سوئے گا۔ آسماں کی طرف نگاہ کر کے بولی ہمیں دو وقت کی روٹی کتنی مشکل سے مل رہی ہے اور میرے بیٹے کو تیرے نام پر قتل کیا گیا۔ ہمیں تو غربت کے سوا کسی چیز سے نفرت ہی نہیں نفرت کرنے کا سبب ہی نہیں ۔ میں اپنے چھوٹے لاڈلے کو صبح سویرے نیند سے بیدار کرتی اور منڈی میں گری ہوئی یا پھینکی گئی سبزیاں اکٹھا کرنے بھیج دیتی جب اپنے بچے کو گہری نیند سے زبردستی اٹھاتی اور کبھی منڈی میں سبزی ختم ہونے کے خوف سے بغیر ناشتے کے بھیج دیتی تو اس کے نیند بھری آنکھوں اور پر شکوہ چہرے کو دیکھ کر بعد میں تنہائی میں دیر تک روتی رہتی لیکن تو نے ان کو چھین کر روز روز کی گریہ سے مجھے فراغت دی اور اس کو آرام سے سونے دیا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے؟
ماں آسماں سے باتیں کرتی جا رہی تھی آنکھوں سے اشک بہتے جا رہے تھے اور چھوٹا بیٹا ماں کو تک رہا تھا کہ ماں آخر کس سے بات کر رہی ہیں؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn