انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو انسان کو غلام بنانے سے لے کر ان کا معاشی ، سماجی، سیاسی، لسانی، مذہبی اور اخلاقی قتل مخصوص طبقہ کرتا آیا ہے۔
دوسروں کے بهائیوں اور بیٹوں کو جہاد کا ایندھن بنا کر خود اپنی اولاد کے لئے دولت کے انبار لگا دیئے جاتے ہیں۔ جنہوں نے سوالات اٹھائے ان کے خلاف حب الوطنی کے جذبات بیچ کر رستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ عوام پر حکمرانی برقرار رکھنے کے لئے ان کو تقسیم کر کے آپس میں دست و گریباں کر دیا جاتا ہے۔ جہاں پر جو حربہ کارگر ہوتا ہے وہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر طرح کے کارندے ساتھ رکھتے ہیں جن سے موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
سوالات تحقیق کو جنم دیتے ہیں اور تحقیق جرم کو بے نقاب کرتی ہے ان سوالات کو دبانے کے لئے ان بالادست طبقے کے پاس کئی حربے ہوتے ہیں جن سے اٹھتے سوالات دبائے جاتے ہیں۔
لفظوں کے ہیر پھیر سے درد مٹائے نہیں جا سکتے ، یتیموں کے سر پر باپ کا سایہ نہیں بن سکتے ، بیوہ کا سہاگ نہیں بن سکتے ، ماں کے سینے کی ٹھنڈک نہیں بن سکتے ، بہن کی ڈھارس نہیں باندھ سکتے اور باپ کی جھکی کمر کو سیدھا نہیں کر سکتے۔
سوال اٹھائیے جرات سوال پیدا کیجئے ۔خود کو مذہبی، لسانی و سیاسی اور جهوٹے حب الوطنی کے جذبات کے لہروں کے سپرد کرنے سے پہلے سوال اٹھائیے ،تحقیق کیجئے، عقل و فہم کا استعمال کیجئے، غور و فکر کیجئے، اقرار سے پہلے انکار کیجئے ورنہ جہالت کی راہ پر قتل ہونے میں ہم خود بھی ذمہ دار ہیں ۔ کیا رب العزت نے بار بار غور و فکر کا حکم نہیں دیا ہے؟
اگر دین کے نام پر ورغلا کر دہشت گرد بنائے جاتے ہیں تو سیاسی و شاہی حکمرانی کو دوام دینے کے لئے بهی مختلف طرز کے غلام بنائے جاتے ہیں ریاستی دہشت گرد بھی بنائے جاتے ہیں ایسے لوگ مختلف لباس میں میدان میں اتارے جاتے ہیں جو ہاتھوں میں ایماں و حب الوطنی کا ترازو لیے ہر اس انسان کو کچلتے ہیں جو سوال اٹھاتے ہیں جو عام انسان کو شعور دیتے ہیں۔
مقتول کو مقدس لفظوں کا کفن پہنانے سے نہ درد مٹائے جا سکتے ہیں نہ ذہن مطمئن کیے جا سکتے ہیں۔
ہمیں بھی محبت کے گیت لکھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے لیکن محبت امن کے بغیر ممکن نہیں ۔ جنگ میں فقط نفرت جنم لیتی ہے۔ محبت کا پودا سوکھ جاتا ہے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔ آس پاس سسکیوں اور آہوں کی گونج سنائی دے رہی ہو تو کوئی بے ضمیر انسان ہی ہوگا جو ان سسکیوں کی لہروں میں ڈوب نہ جائے۔
ہم پاکستانی قوم یوم آزادی پر ہم ایک ہیں ایک ہیں کے نغمے گا کر کس کو مطمئن کر رہے ہیں کہ ہم ایک ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ واقعی ہم ایک ہیں؟ اگر ایک ہوتے تو دوسرے کا درد اپنا درد کیوں نہیں ہوتا؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بالادست طبقے ہمیشہ بالادست رہیں گے؟ ہم عام غریب عوام کے دکھ سکھ سب ایک ہیں ۔آج میری جماعت کی حکومت ہے میرا مخالف کچلا جا رہا ہے تو کل کو میرے کچلے جانے کی باری ہے۔
آج تک پوری قوم نے کبھی حکومت پہ دباؤ ڈالا ہے کہ ہمیں اس ملک میں نفرت نہیں چاہیے؟ بلوچستان کے معاملے کو سیاسی طور پر مذاکرات کے ذریعے مکمل حل کیوں نہیں کیا جاتا؟ فاٹا کے قبائل کو حقوق کیوں نہیں ملتے؟ مہاجروں کے ساتھ نسلی امتیاز کیوں؟ ہزارہ کا بار بار قتل عام کیوں؟
ہماری ریاست نہ مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے نہ دہشتگردی ختم کرنے میں ۔ طالبان کو روحانی بیٹے و شہید اور پاکستانی فوج کو مرتد اور مردار کہنے والے ایوان میں لائے جا رہے ہیں تو پھر کس منہ سے فقط آلہ کاروں کے خلاف جنگ کو ختمی جنگ کہہ دوں؟ اس ملک کے ہر شہری کے دہشتگردی کے واقعات میں قتل ہونے پر اتنا ہی دکھ درد ہے جتنا فوج ، پولیس اور دیگر اداروں کے افراد پر ہوتا ہے لیکن یہاں دہشتگردی کے واقعے کے بعد عجیب بات سامنے آئے گی مثلاً کئی بار دیکھا شہید فوجی کے تصویر کے ساتھ لکھا ہوگا لو دیکھ لو پورے ملک کا بجٹ کھانے والا کیا لے کر گیا ؟ کہیں اعتراض والوں کو گالیاں دی جاتی ہیں عجیب و غریب رویہ اختیار کرتے ہوں گے جب بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے۔
یہ کس قسم کی منطق ہے؟ یہ جو باقی عوام ، پولیس، وکلا اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے دہشتگردی کا شکار ہوئے وہ کتنا بجٹ کھاتے تھے؟ یہ انتہائی کمتر سوچ ہے یہاں جو جس شعبے میں ہے وہ ریاست کا ملازم ہے کیا بدن میں آنکھ ہاتھ سے بہتر ہے کیا ہاتھ پاؤں سے بہتر ہیں؟ جناب ہر ایک کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور یہ سارے مل کر بدن بنتا ہے اسی طرح تمام ادارے مل کر ریاست بنتی ہے اور عوام سے تکمیل پاتی ہے۔ ایک استاد ، وکیل ، پولیس والا یا عام شہری دہشتگردی کا نشانہ بنتا ہے تو اتنا ہی شہید ہے جتنا ایک عام فوجی یا آفیسر۔
ریاست فقط زمین اور پہاڑوں پر مشتمل حصے کا نام نہیں ریاست انسانوں سے بنتی ہے انسان ہیں تو ریاست ہیں ورنہ خالی جنگل و دشت کی حفاظت کوئی پاگل ہی کرے گا۔ زمین کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک زمین کا ہر حصہ اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور رہے گا نہ کوئی پہاڑ اکھاڑ کر نہ زمین کا ٹکڑا اکھاڑ کر لے جا سکتا ہے ہم سے پہلے مختلف اقوام و مذاہب اس خطے کے مالک تھے آج وہ کہاں ہیں؟ زمین کا یہ حصہ اور جنگل و صحرا اب بھی موجود ہیں۔
دہشتگردی ابھی تک ختم نہیں ہو سکی ٹارگٹ کلنگ عروج پر پہنچ گئی ہے ہزارہ برادری اور صوفی سنی و شیعہ کا روز قتل ہو رہا ہے لیکن ہم پھر بھی زندہ قوم ہیں؟
ہمیں واقعی ایک قوم بننا ہے ایک مضبوط ریاست بنانا ہے تو ریاست کو حقیقی معنوں میں ماں بننا پڑے گا سوتیلی ماں نہیں ۔ جس دن ہمیں یہ سمجھ آئے کہ پاکستان کئی اکائیوں پر بنی ریاست ہے کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ پسند نہیں تو پاکستان سے نکل جائیں۔ یہاں یہ قومیں پاکستان بننے سے صدیوں پہلے آباد ہیں پاکستان ان کی زمین پر بنا ہے نہ کہ وہ پاکستان میں بنے ہیں ۔ جس قومیت کا جو حق ہے پہلا حق اسی کا ہے بعد میں ریاست کا۔ میرے لئے چاہے ایک فیصد مل جائے لیکن پہلا حق ان کا ہے جو چیز اس صوبے کے عوام کا ہے۔
مسائل کبھی زور آزمائی سے ختم نہیں ہوا کرتے بلکہ اس سے مزید ردعمل پیدا ہوتا ہے تشدد انتقام کا جذبہ پیدا کرتی ہے ناانصافی بغاوت پر اکساتی ہے۔ جب تک عوام سیاسی و مذہبی اور جنرل شاہی کے کعبے سے نکل کر مل کر ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے تو یہ بالادست طبقے ہمیشہ ہم عام غریب عوام کو مختلف طریقوں سے کچلتے رہیں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn