جناب آج کل فیس بُک اگرچہ تعلیم و تحقیق کا ذریعہ بنی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض شیطان نما لوگ مختلف پیج بنا کر پہلے ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں کہ جو ہماری طبیعت کے ساتھ موزوں ہوتی ہیں اور ہماری دیکھا دیکھی اور بهی ان پیجز میں فاتحانہ انداز سے اترتے ہیں۔ ابتداء میں یہ شہد سے زیادہ شیریں اور اصلاح پسند لگیں گے اور جب ذہنوں کو پوری طرح سے اپنے خونخوار ارادے میں قابو پا لیتے ہیں تو پهر آہستہ آہستہ لوگوں کو گمراہ اور دلوں میں وسوسے ڈالنے کے لئے قومِ اسرائیل کی طرح گائے کے رنگ و نسل اور عمر کے حیلے بہانے بنا کر در اصل اپنی شیطانی ذہنی افکار مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ نے قرآن مجید کے سورہ والناس میں ایسے ہی لوگوں کے وسوسوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ انسانی جسم میں حلول زدہ شیطان ہوتے ہیں۔ شیطان کی باتیں ہم کو بری لگتی ہیں لیکن بدقسمتی سے شیطانِ مجسم کی باتیں سوچنے پہ مجبور کرتی ہیں۔ اللہ نے قوم اسرائیل کو جب گائے کی قربانی کا کہا تو شیطان لوگوں کی اچھی خاصی ڈائریکشن کر رہا تھا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑی سے جواب لے کر واپس آتے تو یہاں شیطان نے پہلے ہی سے نئے سوال لوگوں کے درمیان چھوڑ دئے ہوتے تھے اور اللہ کے نبی بار بار پہاڑی کا چکر لگاتے رہے اور یہ نئے سوال کے ساتھ استقبال کرتے۔
تو یہی حال اب ہمارے معاشرے کا بهی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ یہاں بہ لباسِ انسانی میں بے شمار موجود ہیں۔ شیطان اک کردار بن گیا ہے اگر اصلی صورت میں آتا تو شاید صاحبانِ علم و ادب کے تو قریب ہی نہ آتا لیکن باقی ہم جیسے لوگ بھی تھوڑا بہت دامن تو بچا لیتے لیکن صورت ایسی اختیار کر لی ہے کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کہیں وه ہمارے اپنے وجود کے اندر یا گھر کے افراد اور یار دوستوں کی ہی صورت میں نہ ہو۔ آنکھ کے قریبی محل وقوع میں رہائش پذیر باریک چیزیں اکثر نظر بهی تو نہیں آتیں۔
ہماری فطرت بهی عجیب و غریب ہے کہ اس پیج کو لائک بهی ہم ہی کرتے ہیں اور ان کے افکار کو یہ کہہ کر شیئر بهی کرتے ہیں کہ یہ دیکھو یہ (منحوس اور فلاں فلاں) کیا کہہ رہا ہے۔ وه لوگوں کی نفسیات کا اچھا خاصا تجربہ رکھتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ اکثریت پسند نہیں کرے گی اور کمنٹس میں گالیاں تک مل سکتی ہیں لیکن ان کو یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ پوسٹ کو لائک اور آگے شیئر بهی یہی لوگ کریں گے اور یوں ان کے مقاصد کو پورا کرنے کا سہرا بھی ہمارے ہی سر پہ ہے۔
اب آگے کس پہ وه تحریر اثر انداز ہوتی ہے یا نہیں۔ وه ذہنی نشوونما پہ منحصر ہے۔ لیکن اکثریت اس کا شکار ہو ہی جاتی ہیں اور دلوں میں وسوسے گھیرے ڈال کر ذہنوں کو پریشان کرتی ہیں۔ وه اپنے مقصد میں کامیاب انہی لوگوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جو نفرت کے باوجود ان کے پیج اور پوسٹ کو لائک کرنے کے بعد یہ کہہ کر شیئر بهی کرتے ہیں کہ لو جی اس (کافر، مرتد) وغیرہ وغیرہ کی تحریر دیکھو۔
جناب میں جس پیج اور پوسٹ کو ناپسند کرتا ہوں تو نہ اس کو ایڈ کرتا ہوں اور نہ ہی اس کے پوسٹس کو، بلکہ اکثر جب دیکھتا ہوں تو چھپاتا ہوں ( hide all by page )۔
لہٰذا ایسے لوگوں سے بچنا چاہئے اور ان جیسے پیجز کو لائک اور شیئر ہی نہ کریں تو بے غیرت یہ کام چھوڑ کر بوٹ پالش یا قلی کا کام کریں گے لیکن ہم لوگوں نے ہی اس جیسے بے شمار پیجز کامیاب بنائے ہیں۔
گندے تالاب میں پتھر پھینکنے سے چھینٹے آپ کے ہی دامن میں آ گریں گے۔ تو بہتر ہے کہ کنارے سے گزر جائیں اور آگے کسی صاف ستھرے تالاب کے کنارے بیٹھ کر دماغ کو تر و تازہ رکھیں۔
صرف وہی پیجز لائک کریں کہ جس سے نفرت اور شکوک کی بو محسوس نہ ہوتی ہو۔ جو ہمارے روزمرہ اجتماعی زندگی کے ارتقاء کے لیے ضروری چیزیں پوسٹ کرتے ہیں۔ ہمارے پرانی شناخت کو فخر سے پیش کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn