ماں تم رو کیوں رہی ہو، ماں تمہارے بین عرش پہ ایک بھونچال سا کیوں برپا کیے ہوئے ہیں۔ ماں تم اپنا چہرہ کیوں پیٹ رہی ہو۔ ماں میں زینب ہوں۔ تمہاری بیٹی، تمہاری زینب ماں۔ تم کیوں ایسے پیٹ رہی ہو۔ کیوں بلک بلک کر لوگوں کو رلا رہی ہو ماں۔ ماں کیوں بار بار غش کھا کے گر جاتی ہو۔ ماں کیوں تم ایسے دیوانہ وار ادھر سے اُدھر بھاگتی ہو۔ ماں میں تمہاری زینب ہوں۔ میں تو ماں تمہارے سامنے ہوں۔ پھر تم کیوں ایسے ہر ایک کی بیٹی کو چوم کے میری زینب ، میری زینب کی صدا بلند کر رہی ہو۔
ماں کہیں تم میرے کٹے پھٹے وجود کو دیکھ کے تو بین نہیں کر رہی ؟ میری پیاری ماں میں اس کٹے وجود کی اذیت سے دور جا چکی ہوں مجھے اب کوئی درد نہیں ستا رہا مجھے کوئی اذیت تکلیف نہیں دے رہی ۔ میری ماں نہ رو۔
ماں کہیں تم میرے وجود پہ درندگی کے نشانات سے تو عرش نہیں ہلا رہیں ؟ میری پیاری ماں میں شیطانیت کے ان نشانات کے کرب سے بہت دور جا چکی ہوں۔ مجھے اب اس کرب کا کوئی احساس نہیں۔ میری ماں نہ رو۔
ماں کہیں تم وہ تصاویر دیکھ کے تو نہیں آہ و زاری کر رہی جہاں میرا لاشہ کوڑے کے ڈھیر پہ پڑا ہے؟ میری پیاری ماں میں نرم بستر و کوڑے کے ڈھیر کے فرق سے ماورا ہو چکی ہوں ۔ میری پیاری ماں نہ رو۔
ماں کیا تم اپنی زینب کی معصومیت پامال ہونے پہ نوحہ کناں ہو؟ میری پیاری ماں تم یہ نوحہ و ماتم کا سلسلہ موقوف کر دو کہ تمہاری زینب اس ماتم ، نوح، گریہ سے واپس آنے کی حدوں سے دور چلی گئی ہے۔ میری پیاری ماں نہ رو۔
ماں کیا تم مجھے پیدا کرتے ہی مجھے دلہن بنا دیکھنا شروع ہو گئی تھیں، دلہن بنا نہ دیکھ پائی اس لیے رو رہی ہو؟ میری پیاری ماں کیسے تم مجھے اپنی دعاؤں کے سائے میں دلہن بناتی۔ میں کیا کرتی ماں، میرا تو بچپن پامال ہو گیا، میری تو معصومیت کو روند ڈالا، میری پیاری ماں نہ رو، نہ رو ۔۔میری پیاری ماں کہ تمہیں ابھی میرا بہت ساتھ دینا ہے۔ تمہیں ابھی مجھ پہ بہت آنسو بہانے ہیں۔ تمہیں میری پیاری ماں ابھی بہت بین کرنے ہیں اپنی زینب پہ۔
ماں، میری پیاری ماں، تمہاری زینب ہوں میں ماں، ماں میں زینب ہوں،ماں میں زینب ہوں۔
میری پیاری ماں میں تمہارے بین سن رہی ہوں۔ کیوں کہ ماں تم بے حسی کے جنگل میں رہ رہی ہو۔ میری پیاری ماں تک انسان نما درندوں میں گھری ہوئی ہو، بہت جلد میری پیاری ماں کوئی اور سنبل روندی جائے گی، کوئی اور زینب پامال ہو کے کوڑے کے ڈھیر پہ پڑی ہو گی
شاہد عباس کاظمی نوجوان کالم نگار ہیں۔ مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر کالم لکھتے ہیں۔ 100 لفظی کہانیاں بھی ان کی پہچان ہیں۔ ان سے فیس بک اور ٹوئٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn