Qalamkar Website Header Image

ٹوٹتی امیدیں(۱)-شاہد عباس کاظمی

دعویٰ تھا کہ ایک سال کے اندر اندر لوڈ شیڈنگ کے عفریت پہ قابو پالیں گے۔ دِنوں سے مہینوں، چھ مہینے، پھر سال کا وقت عوام کو عنائیت کیا گیا ، کمال مہربانی سے ۔مگر شومئی قسمت کہ یہ صرف انتخابی وعدہ ثابت ہوا۔ اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بجائے صرف اور صرف پل، سڑکیں، انڈر پاس، میٹرو بس، میٹرو ٹرین بنانے پہ تمام توانا ئیاں صرف کر دی گئیں۔ لاہور میٹروبس ، ملتان میٹرو بس، راولپنڈی میٹرو بس، راقم کو تینوں پراجیکٹس کا ذاتی طور پہ مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ تینوں منصوبوں کو اگر بغور دیکھیں تو ہوا میں لہراتی سڑک کے علاوہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آ سکی۔ لاہور کو انڈر پاسز کا شہر تو بنا دیا گیا مگر حالات اس قدر خراب کر دیے گئے کہ آلودگی سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ سالہا سال پرانے قدیم درخت پل بھر میں ایسے اکھیڑ دیئے گئے جیسے ان پہ بنے پرندوں کے گھونسلو ں سے کوئی ذاتی دشمنی نکالی جا رہی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ میٹرو ٹریکس بن جانے کے باوجود ٹریفک کی روانی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکی۔ مغلیہ دور کی عمارات کے حوالے سے کیسز الگ عدالتوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ لیکن جو بھی ہو جائے منصوبہ وہ پایہ تکمیل تک پہنچانا ضرور ہے جس پہ اپنی سوئی اَٹک گئی ہے۔ چاہے وہ مفاد عامہ میں ہو یا نہ ہو۔
راولپنڈی میٹرو بس کو دیکھ لیجیے ۔حکومت اگر یہی تمام پیسہ صدر سے سیکریٹریٹ تک موجود سڑک کو چار رویہ کر دیتی تو اس سے کئی کم لاگت میں بہتر سفری سہولیات مل سکتی تھیں۔ پیرودہائی منڈی میں کشمیر، خیبرپختونخواہ اور راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں سے سبزیاں و پھل لائے جاتے ہیں۔ اگر میٹرو بنانے کے بجائے گاؤں تا منڈی سڑکوں کو ہی بہتر کر دیا جاتا تو جڑواں شہروں کی معیشت میں ڈرامائی تبدیلی آ سکتی تھی۔ سڑکوں کے بجائے اگر صرف ڈیمز بنانے پہ توجہ دی جاتی تو ایک تیر سے دو شکار ایسے ہوسکتے تھے کہ نہ صرف لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے میں مدد مل سکتی تھی بلکہ بنجر علاقے زرعی زمین میں تبدیل ہو سکتے تھے۔ مثال کے طور پر کھیت سے ایک من پیداوار حاصل ہوتی اگر اور یہی پیداوار بہتر سفری سہولیات کی وجہ سے فوری منڈی میں پہنچتی اور وہاں پہ اس کو اسٹور کرنے کا مناسب بندوست ہوتا اور عام لوگوں تک فوراً پہنچتی تو اندازہ لگا لیجیے کہ انقلاب عام آدمی کی زندگی میں میٹرو بس سے آسکتا تھا یا دیگر منصوبہ جات کی وجہ سے ، جو خرچہ میٹرو جیسے منصوبوں پہ کیا گیا ہے وہی پیسہ مفت بیج کی فراہمی، کسانوں کو سستی بجلی، ملازمین کو بہتر ملازمت کے مواقع، مفت تعلیم کی سہولت ، مفت طبی سہولیات پہ خرچ کر دیا جاتا تو حالات آج کس نہج پہ ہوتے ۔ لیکن کرنا وہی ہے جو اپنا من ہے۔ عوام کی امیدیں اسی لیے ٹوٹتی ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے۔ مفت علاج کا وعدہ کیا جاتا ہے ۔ مگر طبی کارڈ کا اجراء شروع کر دیا جاتا ہے۔ آپ کیوں خوامخواہ کارڈز کی زحمت میں پڑتے ہیں۔ آپ صرف اتنا کرتے کہ تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کر دیتے ۔ اور شکایات کے لیے کوئی ایسا فورم بنا دیتے جو اتنا مستعد ہوتا کہ ایک دن میں شکایت سنتا اور ازالہ کرتا۔ کہنے کو اب بھی ہسپتالوں میں علاج مفت ہے۔ لیکن اس مفت علاج کا کیا فائدہ جہاں ایک سوئی تک باہر سے خود لے کر آنی پڑے۔ آپ تعلیم مفت کر دیتے ۔ کہنے کو تعلیم بھی شاید کہی جا سکے کہ مفت ہے ۔ مگر کیا فائدہ ایسی مفت تعلیم کا جہاں اسکول باڑے بنے ہوں۔ جہاں اساتذہ قدیم طریقوں کو اپنائے ہوئے ہوں۔ جہاں مولا جٹ کا راج ہو۔ عوام کو امیدیں تھیں کہ شاید آپ گندم کو ذخیرہ کرنے کے گودام بنائیں گے، آپ ڈیمز بنائیں گے، آپ رابطہ سڑکوں کی حالت زار بہتر کریں گے، آپ دیہاتوں کو سہولیات دیں گے، آپ تعلیم مفت کریں گے، آپ صحت کی سہولت دیں گے، آپ انصاف کی فراہمی غریب کی دہلیز پہ مفت یقینی بنائیں گے، آپ اور نہیں تو اپنے منشور پہ عمل کریں گے۔
لیکن عوام کی "ٹوٹتی امیدیں” یہ منظر دیکھ رہی ہیں کہ حکومت وقت کی ساری توانائی تو سیاسی محاذ آرائی میں خرچ ہو رہی ہے۔ تمام پیادے و وزیر تو اپنی قوت عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی پہ خرچ کرنے کے بجائے صرف مخالفین پہ فقرے کسنے پہ خرچ کر رہے ہیں۔ تمام مشراء پر خلوص مشوروں کے بجائے اپنی اپنی جگہ پکی کرنے کے چکر میں ہیں، آپ سے جو امیدیں وابستہ کر لی گئی تھیں، یہ بھول کر کہ پہلے جو مواقع ملے اس پہ آپ نے کیاکیا، وہ اب ٹوٹتی نظر آ رہی ہیں۔ سڑکوں سے زیادہ عوام کو توجہ دیجیے۔ سیاسی نعروں سے زیادہ عمل پہ زور دیجیے۔ اپنی صفائیاں خطابات میں دینے کے بجائے اگر عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی ہوتی تو آج عوام آپ کے مخالفوں کو آپ سے پہلے جواب دے رہے ہوتے۔ مگر آپ نے جس طرح عوام کی امیدوں کا خون کیا ہے اس سے آپ اپنے مخالفین کے ہاتھ ہی مضبوط کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔۔۔ عالی جاہ! غور کیجیے۔
یہ”زُبانِ اہلِ زمیں”ہے
۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے صاحب تحریرسے اس ای میل ایڈریس پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
ssakmashadi@gmail.com

حالیہ بلاگ پوسٹس