Qalamkar Website Header Image

اتنی سی التجا – شاہد عباس کاظمی

آسمان پہ اُڑتی رنگ برنگی تتلیاں یعنی پتنگ، یہ پہچان تھی بسنت کے تہوار کی ۔ جب سرسوں پھولنے لگتی تو موسم خوشگوار سا محسوس ہوتا۔ اور دوکانوں پہ پتنگ بازی کا سامان سج جاتا۔ عرصہ ہوا ایک دفعہ بسنت کا تہوار منظم کرنے کا اتفاق ہوا۔ جب ابھی اس تہوار میں نہ تو رنگین پیرہن تھے۔ نہ ہی اس میں دھوم دھڑکا ایسا تھا کہ باقاعدہ ساؤنڈ سسٹم بک کیے جاتے ۔ اور نہ ہی اس وقت اس تہوار میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ شامل ہوئی تھی۔ اور نہ ہی اس وقت اس تہوار میں دیگیں چڑھائیں جاتی تھیں۔ بلکہ صرف کسی بھی مخصوص علاقے میں کچھ لڑکے ہاتھ سے لکھی ایک تحریر کچھ وقفوں میں چسپاں کر دیتے تھے جس کے الفاظ عمومی طور پر کچھ ایسے ہوتے تھے۔” فلاں دن اس وقت سے لے کر اس وقت تک بسنت منائی جائے گی ۔ اس میں شامل ہونے کے لیے تمام پتنگ بازوں کو دعوت دی جاتی ہے” بس اتنے سے اعلان کے ساتھ بسنت کا تہوار شروع ہو جاتا تھا۔ پتنگوں کے بھی بڑے خوبصورت نام ہوا کرتے تھے۔ جیسے گڈی، گڈا، ماچس، مچھر، تکل، پھرلو، شرلی، وغیرہ وغیرہ ۔اور بازار سے اگر پتنگ خریدنے کی استطاعت کسی کے پاس نہ ہو تو وہ مومی پتنگ بنا کر اس تہوار میں شامل ہو جاتا تھا۔ گھروں میں کسی سے دریافت کیا جاتا کہ کہاں گم ہے تمیز الدین تو ماں یا دادی مصنوعی خفگی سے کہتی تھیں کہ آج بسنت ہے نا صبح سے چھت پہ براجمان ہے۔ اور اکثر شام میں جس دوست کی چھت سب سے کھلی ہوتی وہاں موجود تمام لڑکوں بالوں کو اس گھر کی بڑی بوڑھی چائے کے ساتھ پاپے یا بہت زیادہ ہوا تو پکوڑے بنا کر کھلا دیتی تھی تو بسنت کا مزہ دوبالا ہو جاتا تھا۔ بس اتنی سی روداد ہوتی تھی مکمل بسنت کی۔
وقت گزرا ہم نے بسنت کو تاریخ میں سے ثابت کرنا شروع کر دیا۔ کسی نے اس کا تعلق قدیم چین کی روایات سے جوڑا تو کسی نے اس ہندوانہ تہور قرار دے دیا۔ کبھی اس پہ پابندی لگی کبھی منانے کی آزادی ملی۔ جیسے جیسے اس تہوار میں سیاست شامل حال ہوئی اور اپوزیشن نے اس پہ پابندی کا مطالبہ کیا تب تب اس میں گھاگھ کھلاڑی شامل ہوتے گئے۔ اور نتیجتاً جب بھی اس تہوار کو منانے کی آزادی ملی اس میں ڈھول پتاشے، کھابے، گولیوں کی تڑ تڑ شامل ہوتی گئی۔ یوں یہ تہوار ایک عام سادہ انسان کے تہوار سے بڑھ کر امراء کا تہوار بن گیا۔ رہی سہی کسر قاتل ڈور نے پوری کر دی۔ اچھی طرح یاد ہے کہ جب بسنت بسنت تھی تب کوئی عام دھاگے کے بجائے موٹی اون کا دھاگہ بھی استعمال کر لیتا تھا تو سب اس سے پیچ لڑانے کا بائیکاٹ کر دیا کرتے تھے۔ چہ جائیکہ دھاتی ڈور کا استعمال۔
زمانے نے ترقی کی مگر بسنت کی خوبصورتی کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔ میرے دور کا مشہور پتنگ باز عارف کہیں گم ہو گیا اور بسنت کے تہوار میں ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہوتی گئیں۔ جانیں ضائع ہونے لگیں۔ پابندیاں لگنے لگیں۔ چھتوں سے گر کر ہڈیاں ٹوٹنے لگیں۔ بچے گاڑیوں کے نیچے کچلے جانے لگے۔ بجلی کی تاروں سے اموات ہونا شروع ہو گئیں۔ ان دیکھی گولیاں ماؤں کی گود ویران کرنے لگیں۔ دھاتی ڈور نونہالوں کی گردنوں کو کاٹ پھینکنے لگی۔ پتنگ سازی کی صنعت دم توڑنے لگی کیوں کہ اب غیر یقینی کی صورت حال نے جنم لیا کچھ معلوم نہیں ہوتا کب لاکھوں روپے لگا کر سامان تیار کیا جائے اور پابندی لگ جائے۔ شیدے، گامے، مودے بے روزگار ہونے لگے۔ پتنگ بازی ایک تہوار سے آگے نکل کر ایک المیہ بننے لگی ۔ لوگ دوسروں پہ دھاک بٹھانے کے لیے چوری دھاتی ڈور بنوانے لگے ۔ مومی پتنگ کا دور نہ جانے کہاں گم ہوتا گیا اور ہزاروں روپے مالیت کی پتنگیں مارکیٹ میں آ گئیں۔ جو تہوار صرف سرسوں کے پھولنے اور لڑکوں بالوں کے ایک آدھ دن چھتوں پہ گزارنے پر بس ہو جاتا تھا اُس میں پورا مافیا شامل ہوتا گیا۔ اور آج حال یہ ہے کہ اس تہوار پہ پابندی کی تلوار منڈلا رہی ہے۔ اس صنعت کو تباہی کے دہانے پہ پہنچا دیا گیا ہے۔ اس کے حسن کو گہنا دیا گیا ہے۔
اس تہوار کو بچانا ہے تو اسے تاریخ میں ڈھونڈنے کے بجائے اس کی وہی سادگی لوٹا دی جائے کہ جس میں مغرب کے فوراً بعد چھت سے اتر جانا لازمی ہوتا تھا ورنہ دادا ابا ، نانا ابو کی لاٹھی کا خوف جان لے لیتا تھا۔ اس کو وہ زمانہ لوٹا دیا جائے کہ جب آواز آتی تھی پھر انگلی کاٹ لی نا بس اب اگلے ایک ہفتے کے لیے تمہارے پتنگ اڑانے پہ پابندی۔اور کبھی کچھ پیسے آپا سے لینے، کچھ ابا جی سے ڈرتے ہوئے لینے ایک پنا ڈور اور ایک کاغذی پتنگ کا انتظام کر لینا۔ بس اتنی سادہ سی تھی بسنت ۔ بس اس میں سے گولیاں، بھنگڑے، پکوان۔ سب الگ کر دیجیے ۔ اس میں سے دھات نکال کر پھر دھاگہ رکھ دیجیے۔بس بسنت اتنی سی التجا کرتی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس