Qalamkar Website Header Image

جینا ہردور میں عورت کا خطا ہے لوگو !

عورتوں کا عالمی دن بڑے زور شور سے منایا جاتا ہے،  منانا بھی چاہیئے۔  1909ء سے یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے،  تاریخ بتاتی ہے کہ 1908ء میں پندرہ سو عورتیں مختصر اوقاتِ کار،  بہتر اجرت اور ووٹنگ کا حق مانگنے امریکہ میں سڑکوں پر نکلیں،  ان کے خلاف مزاحمت کی گئی ان میں سے بہت سی عورتوں  کو گرفتار بھی کیا گیا،  1909 ء میں امریکہ میں سوشلسٹ پارٹی نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد  منظور  کی اور پہلی بار اسی سال 28 فروری کو  امریکہ میں یہ دن منایا گیا ، 1910 ء میں ملازمت پیشہ خواتین کی  عالمی کانفرنس ہوئی جس میں ہر سال دنیا بھر میں عورتوں کا دن کی تجویز منظور کی گئی،  یہ دن ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کے لیے منانے کی شروعات ہوئی،  جس میں دنیا بھر کے ممالک حصہ لینے لگے،  اس کے بعد سے 8 مارچ کو  ” خواتین کا عالمی دن ” منایا جاتا ہے۔

 اس دن ریلیاں نکالی جاتیں ہیں،  سیمینارز  ہوتے ہیں جن میں خواتین کے حقوق اور مقام کو لفظوں کے جال میں بُن کر،  سجا سنوار کر پیش کیا جاتا ہے۔  پاکستان  میں عورت کو حقوق دینے کے لیے بہت کام کی ضرورت  ہے ہم دو انتہاؤں  میں جی رہے ہیں کام کرنے والی تعلیم یافتہ عورت یا پھر معاشرے کی سب سے زیادہ مظلوم اور مجبور،  رسم ورواج میں جکڑی عورت جو اپنی عزت کی پائمالی بھی خاموشی سے سہتی ہے۔  جاہلانہ رسومات  عروج پر ہیں اب بھی جائداد کی خاطر لڑکیوں کی شادی قرآن سے ہورہی ہے،  بھائی  کی غلط کاری کے نتیجے میں بہن کو دشمن کے حوالے کرنا،  عزت کے نام پر کاری کرنا بھی نہیں ختم ہوا ہے۔  تعلیم یافتہ لڑکیوں کو رشتہ نہ دینے پر قتل کرنا تو عام بات ہے،  جائداد  ایک ایسی چیز ہے جو بھائی کو بھائی کا دشمن بنادیتی ہے تو پھر بہن کی جائداد تو آسانی  سے ہڑپ کرلی جاتی ہے۔  اب بھی لڑکیوں کی شادی غیروں میں نہیں کرتے کیونکہ اس طرح زمین جائداد غیروں میں چلی جائے گی۔

یہ بھی پڑھئے:  مادھو لعل ؒ کے شہر سے سندھ کنارے تک(2) -قمر عباس اعوان

ہمارے معاشرے میں تو اب بھی خواتین کو وہ حقوق نصیب نہیں جو ملنے چاہیئے،  اب بھی لوگ جاب کرنے والی لڑکی  کو برا سمجھتے  ہیں،  آج تک گالی دینے والے کی زبان کوئی نہیں روک سکا ہے ان گالیوں میں بھی خواتین سے جڑے  رشتے ماں بہن لگے ہوتے ہیں،  خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اس طرف بھی توجہ دیں کہ خواتین اپنے گھروں  میں بھی باپ،  بھائیوں  اور شوہرکے ظلم کا شکار ہوتیں ہیں اور چپ سادھ لیتیں ہیں کہ گھر کی بدنامی نہ ہو۔  جنسی ہراسمنٹ کا شکار ہونے والی خواتین  کی ایک بڑی  تعداد کوئی شکایت  درج نہیں کراتیں کچھ بہادر ہوتیں ہیں جو اپنے حق کے لیے عدالت  کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں اور مقدمہ لڑتی ہیں لیکن اس دوران کتنی بار جیتی ہیں کتنی بار مرتی ہیں یہ وہی جانتی ہیں۔ خواتین کے لیے قانون میں ترمیم کی ضرورت  ہے۔

 ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل دگنے ہیں انھیں گھر کے ساتھ ساتھ باہر کے محاز پر بھی لڑنا پڑتا  ہے کیونکہ اب بھی شہر ہو یا دیہات ملازمت پیشہ خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا جبکہ ملازمت پیشہ خواتین  کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے،  مہنگائی اور گھر کو چلانے کے لیے عورت کو مرد کا ہاتھ بٹانا ہی پڑتا ہے،  آجکل عورت کی ملازمت ایک ضرورت  بن گئی  ہے،  گذارہ ہی نہیں ہوتا۔  اپنی دہری ذمہ داریاں انھیں بیک وقت نبھانی ہوتیں ہیں اور دو محازوں کو ایک وقت میں دیکھنا پڑتا ہے اس میں گھروالوں کے تعاون اور مرد کی سوچ بدلنے کی ضرورت  ہے۔  آفس ٹائم میں مرد کولیگ  بھی اپنا رویہ بدلیں اور عورت کو بھی برابری کا درجہ دیں ان کی عزت بھی اسی طرح کریں جیسے مرد باس یا ساتھی کی کرتے ہیں،  ساتھ کام کرنے والی خواتین سے اخلاق سے پیش آئیں انھیں غلط نظر سے نہ دیکھیں،  گھر میں بھی شوہر بیوی سے تعاون کریں دونوں جاب کرتے ہیں دونوں گھر چلا رہے ہیں تو گھر کا بچوں کا خیال رکھنا بھی دونوں کی ذمہ داری ہے ، ساتھ رہنے والے سسرالی رشتے بھی بہو کا ساتھ دیں تو بہت سے مسائل نمٹ سکتے ہیں بلکہ جنم ہی نہیں لیں گے۔ خواتین کے دن پہ ہمیں بے سہارا خواتین کی بہبود کے لیے کام کرنے کی ضرورت  ہے  ، لڑکیوں  کی تعلیم کے لیے کام کرنا ہو گا  ، تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھانا چاہیئے ان سب کا اعادہ خواتین کے دن پر کرنا ایک اچھا اقدام ہوگا۔

 جس کو تم کہتے ہو خوش بخت سدا ہے مظلوم 
جینا ہردور میں عورت کا خطا ہے لوگو  !

حالیہ بلاگ پوسٹس