کہیں کچھ ایسا ضرور ہے جو ہمیں بار بار یہ دیکھنا اور سننا پڑتا ہے۔ کوئی کوتاہی ضرور ہوئی ہے جو ہمارے ملک میں دہشت گرد گھس کر تعلیمی ادارے تباہ کردیتے ہیں اور ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک تو شمالی علاقوں میں بچے تعلیم کے نام سے گھبرانے لگے تھے۔ جگہ جگہ اسکول دھماکے سے تباہ کرنا، کہیں بچے بچیوں کو نشانہ بنانا تاکہ وہ علم کے اجالوں سے دماغ روشن نہ کرلیں۔ علم کی روشنی پھیلے گی تو وہ دہشت گردوں کا ساتھ نہیں دیں گے، جہالت سے ان کا کام آسان ہوگا۔
لڑکیوں کی تعلیم کو خاص نشانہ بنایا گیا، کئی سو اسکول لڑکیوں کے تباہ کیے گئے۔ لیکن لڑکیوں نے ہمت نہ ہاری ۔نامساعد حالات میں بھی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ آج ملالہ کو دنیا جانتی ہے لیکن اس پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برباد ہوگئے۔ دہشت گردوں کے حملوں میں کمی آئی تھی لیکن کچھ دن کے سکون کے بعد یہ دوبارہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک اور درس گاہ تباہ کردی۔ ایک بار پھر یہ دہشت گرد جاگ گئے ہیں، وقتی طور پر سکون ہوا تھا۔ اسکول تعلیمی ادارے دوبارہ سے فعال ہوئے تھے، بچوں کے دلوں سے دھماکوں اور دہشت گردی کا خوف نکلا ہی تھا کہ اسکول تباہ کرنے کی خبر آگئی۔
چترال میں دہشتگردوں کا اسکول پر حملہ عمارت تباہ ہوگئی۔ پاک افغان بارڈر، ارنددگول میں گورنمنٹ پرائمری اسکول میں گھس کر دہشت گردوں نے حملہ کیا، پولیس کی جوابی فائرنگ جنگل میں چھپے دہشت گرد بھاگ گئے۔ اسے خوش قسمتی کہیں یا حکمتِ عملی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا شکر ہے اسکول میں چھٹی تھی، عمارت تباہ ہوگئی۔ بہت سادہ ہیں ہم یا نظریں چراتے ہیں۔ دہشت گردوں کو سب پتہ ہوگا وہ تعلیم کے فروغ کے خلاف ہیں انھوں نے اسکول کی عمارت تباہ کی ہے اگر اس کے بعد بھی والدین بچوں کو پڑھانے سے باز نہ آئے تو پھر بچوں کی موجودگی میں اسکول تباہ کریں گے اور جانی نقصان بھی دیکھنا پڑھے گا۔ حکومت کس انتظار میں ہے ۔ دہشت گردوں کو چن چن کر ختم کرنے کا دعویٰ دھرا رہ گیا ہے اور ایک بار پھر دہشت گرد سرگرم ہوگئے ہیں۔ ادھر شہروں میں اسٹریٹ کرائمز بڑھ گئے ہیں ،کراچی میں بچوں کے اغواہ کی وارداتیں بڑھ گئیں ہیں۔
نئے پاکستان میں اس طرف توجہ دی جائے اگر اس کی روک تھام بھرپور طریقے سے نہیں کی گئی تو دہشت گرد ہماری نسلوں کو تعلیم کے زیور سے محروم کر دیں گے۔ علم اور جہل کا کیا ملاپ دہشت گردی جہالت ہے خدارا روز روز امن کی ڈگڈگی بجانے کے بجائے دہشت گردوں سے بچاؤ کا مستقل انتظام کیا جائے۔ ان پر گرفت ڈھیلی نہ کی جائے کیونکہ یہ وہ دشمن ہے جو وقتی نقصان نہیں بلکہ دائمی زک پہنچانا چاہتا ہے۔ اپنے ملک کو ان دہشت گردوں سے بچانے کے لیے سخت سے سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ کسی کی مجال نہ ہو تعلیمی اداروں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امنِ عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہورہا ہوں تو غروب ہونے والا
آئیں سب مل کر عہد کریں کہ ان جاہل دہشتگردوں جو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے تاکہ آنے والی نسلیں علم کی دولت سے مالا مال ہو سکیں۔ خدا میرے وطن کی حفاظت کرے آمین
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn