Qalamkar Website Header Image

اے وطن پیارے وطن | شاہانہ جاوید

23 مارچ کا دن ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے آج کے دن قرارداد پاکستان اقبال پارک لاہور میں پیش کی گئی ۔ بہت جوش وخروش سے اس دن کی یاد منائی جارہی ہے،جلسے، جلوس، مزاکرے، مشاعرے، پریڈ وغیرہ ہو رہی ہے۔

میں آج اپنے شہریو ں سے مخاطب ہوں، میں آپ کا وطن پاکستان ہوں آج مجھےوجود میں آئے ہوئے ستر سال ہونے کو آرہے ہیں کوئی ہے جو مجھے بتائے کہ اس نے میرے لیے کیا کیا، باتیں تو سب بناتے ہیں لیکن میرے لیے حقیقی کام کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اب تک آپ لوگ یہ میرا یہ تیرا میں لگے ہوئے ہیں کسی نے یکجہتی کی بات نہیں کی، آپ لوگوں کو اپنا تشخص ہی معلوم نہیں۔ جس دن سے یہ ملک بنا ہے ذاتوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، کوئی پنجابی، کوئی سندھی ، کوئی پٹھان، کوئی بلوچی اور کوئی اب تک مہاجر بنا ہوا ہے۔ زبان کی بنیاد پہ صوبے تقسیم کیے ہوئے ہیں، اتنا بڑا رقبہ کیا انتظامی بنیاد پر صوبے نہیں بن سکتے لیکن میرے اوپر حکومت کرنے والوں کو یہ منظور نہیں چلو ذاتوں تک تو ٹھیک تھا لیکن فرقے الاماں 72 فرقوں کی پیشن گوئی تھی مجھے لگتا ہے اس سے بھی زیادہ فرقے وجود میں آگئےہیں۔ مذہب کے نام پہ قتل عام ہورہا ہے، کسی کو کافر قرار دیا جارہا ہے اور کہیں غیر مسلموں کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ کیا میرا وجود تم لوگوں کے لیے بیکار ہو چکا ہے یا تم مجھے بھلا چکے ہو اور اپنی بندر بانٹ میں لگے ہو مجھے تو اس لیے بنایا گیا تھا کہ سب مل کر رہیں گے ایک بازو کو تکلیف ہوگی تو دوسرا بازو سہارا دے گا لیکن تم لوگوں نے تو میرا ایک بازو ہی کاٹ دیا اس پر بھی کسی کو نصیحت نہیں ہوئی اور تم لوگوں نے آپس میں لڑ لڑ کر اتنی نفرت کی دیواریں کھڑی کر دی ہیں کہ انھیں گرانا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  ایرانی نظام سیاست اور عوامی بے چینی - حصہ اول

ہر طرف رشوت، چور بازاری، مہنگائی، جہالت کا بازار گرم ہے۔ سیاست دان اپنی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں انھوں نے نوٹ دو ووٹ لو کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے وہ اگر کسی گدھے کو بھی کہیں گے کہ اسے ووٹ دو تو تمھارے ہی طرح کے بھائی بند آنکھ بند کرکے ٹھپہ لگا دیں گے۔ تم لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہوگیا ہے اسمبلیوں میں بھی گندی زبان اور ہاتھا پائی ہونے لگی ہے میں سوچتا ہوں کیا نبیؐ کے فرمان اور اخلاق کو بھلادیا ہے تم نے ؟ لیکن یہ بھی ٹھیک ہے تم لوگوں نے یاد ہی کب رکھا جو بھولنے کی نو بت آتی۔

میرے غریب شہری تو اور بھی بری حالت میں ہیں انھیں تو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں، تعلیم، غذا، بجلی، گیس ، غرض سب مسائل ان کے لیے ہیں وہ غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ میرے شہروں میں بڑی بڑی بلڈنگیں، پلازہ، شاپنگ مال بن گئے ہیں کیا یہ ترقی ہے نہیں ترقی یہ ہوتی کہ پہلے تم سب ایک قوم بنتے پھر ملکر جہالت، بھوک، افلاس، کے خلاف لڑتے اور خوشحالی لاتے۔

میرے باسیو میں اب بھی مایوس نہیں اب بھی مجھے امید ہے میری مٹی سے سرسید، حالی، جوہر، لیاقت علی اور محمد علی جناح جنم لیں گے اور مجھے وہ تشخص دیں گے جو میری پہچان ہے جس کے لیے ہزاروں جانوں نے قربانی دی یاد رکھو میری بنیادوں میں شہیدوں کا لہو تم لوگوں پر قرض ہے مجھے امید ہے میری نئی نسل یہ قرض ضرور اتارے گی۔

یہ بھی پڑھئے:  انتقال سے چند ماہ پہلے منٹو نے یہ مضمون اپنے بارے میں لکھا تھا

میرے بس میں اب اتنا ہے کہ کاغذ کی زمینوں پر

بنا کر گھر میں لفظوں سے انھیں آباد کرتا ہوں

پاکستان پائیندہ باد

 

حالیہ بلاگ پوسٹس