Qalamkar Website Header Image

آج نقد کل ادھار | شاہانہ جاوید

ہم بچپن میں محلے کے ہوٹل میں تندور پہ روٹیاں لگوانے ملازم کے ساتھ جاتے تو کاغذ کے گتے پر لکھا ہوا پڑھ کر بہت حیران ہوتے تھے ” آج نقد کل ادھار”۔ دراصل یہ ایک چھپر ہوٹل تھا جہاں مزدور  دوپہر میں کھانا اورشام کو چائے پانی کے لیے آتے تھے۔ اس ہوٹل میں علاقے کا واحد تندور تھا جہاں روٹیاں لگائی جاتی تھیں۔ جب ہمارے ہاں مہمان آتے یا گرمی زیادہ ہوتی تو روٹیاں تندور پر لگواتے تھے، گوندھا آٹا گھر سے لانا پڑتا اور پچیس پیسے میں پچیس روٹیاں لگ جاتی تھیں۔ ہم جب بھی تندور سے واپس آتے یہ عبارت ذہن میں محفوظ کرکے آتے کہ کسی سے مطلب پوچھیں گے لیکن ہمیشہ بھول جاتے لیکن اس دن دادا ابا سے گھر آتے ہی پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے "آج نقد کل ادھار”، انھوں نے سمجھایا کہ آج پیسے دے کر لو کل ادھار لینا جب کل آئے گی تو پھر آج نقد ہو جائے گا یعنی کل کبھی نہیں آتی اور نقد پہ ہی کام چلے گا۔

جب بڑے ہوئے عملی زندگی میں قدم رکھا تو پتہ چلا ہر طرف ادھار یا قرضے سے کاروبار چل رہا ہے۔ بینک نئی نئی اسکیموں کے ذریعے لالچ دے کر قرضے دینے کا کام کرتے ہیں۔ بنک گاڑی لون، گھر لون، تعلیمی لون، شادی تک کے لیے لون دیتے ہیں اور یہ سب سودی قرضے ہوتے ہیں۔ لوگ اپنا طرز زندگی اونچا کرنے کے لے قرضہ لیتے ہیں، کچھ لوگ اپنے ارد گرد کے لوگوں، رشتہ داروں سے قرضہ لیتے ہیں اور پھر دینے کے لیے ہزار بہانے تراشتے ہیں. شاید اسی لیے کہتے ہیں "قرض ایک مرض”۔ ہمارے ملنے والوں میں ایک صاحب زید نے تو کمال کردیا۔ کسی سے پچیس ہزار قرضہ لیا اور جب دینے کی نوبت آئی تو ایک شیطانی خیال دماغ میں آیا،  کسی اور کرم فرما کو اپنی گفتگو کے جال میں پھنسا کر پچاس ہزار قرضہ لیا۔ پچیس ہزار پرانے قرض دینے والے کو لوٹایا اور باقی پچیس ہزار اپنے اللے تللے پہ خرچ کردیا۔ قرضہ واپس کرنے کی نوبت آئی تو یہ تو پہاڑ لگنے لگا کیسے ادا کریں۔ جس سے قرضہ لیا تھا اس کی منتیں ترلے کیے لیکن وہ بھی پکا تھا پیچھا نہ چھوڑا ۔ کہیں سے کر کرا کر کچھ پیسے دیے لیکن پورا قرضہ ادا نہ کر سکے اور اس تگ و دو میں جان کی بازی ہار گئے۔ قرض وہ دلدل ہے جس میں انسان دھنستا ہے چلا جاتا ہے اور بچ نکلنے کے مواقع کم ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  رسولاں‌بی بی

دنیا بھر میں قرضوں کا شفاف نظام چل رہاہے، حکومتیں اپنے کاموں کے لیے قرضے لیتی ہیں اور وقت آنے پر ادائیگی  بھی کرتیں ہیں۔ بہت سے ایسے منصوبے ہیں جو قرض لیکر تکمیل تک پہنچائے جاتے ہیں اور ان کے مکمل ہونے پر قرض ادا کردیے جاتے ہیں۔ سودی نظام میں اگر قرض ادا کرنے میں دیر ہو تو قرضہ اور بڑھ جاتا ہے جسے ادا کرنا اور مشکل ہوتا ہے۔

 انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز ( آئی ایف پی آر) کی رپورٹ  2015-16 کے مطابق پاکستان کے قرضوں میں نہایت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2016 بیرونی قرضے لینے کا ریکارڈ سال تھا، جب پاکستان پر واجب الادا بیرونی قرض 7.4 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔ پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرض لینے کی حکومتی حکمت عملی کے پیش نظر آئندہ مالی سال پاکستان کے بیرونی قرضے 8.3 کھرب روپے کی خطرناک حد تک پہنچ سکتے ہیں جبکہ آئندہ ماہ  ہمیں 11. 5 ارب ڈالر کے قرضے بین الاقوامی  اداروں کو واپس بھی کرنے ہیں۔ یہ تو آئی ایف پی آر کی رپورٹ تھی لیکن ہے لمحہ فکریہ۔ آج ملک قرضوں کی دلدل میں بری طرح دھنس چکا ہے۔ ملکی قرضوں میں ہر پاکستانی دو ہزار سولہ میں ایک لاکھ روپے کا مقروض  ہو چکا ہے۔ اس کے لیے وزارت خزانہ کو ایک واضع حکمت عملی طے کرنی ہوگی تاکہ آنے والی نسلوں  پر قرضوں کا بوجھ کم کر سکیں۔

یہ بھی پڑھئے:  آزادی کے نام | شاہانہ جاوید

کہاں ہم اپنے انفرادی قرضوں کی ادائیگی میں پابندی کرتے ہیں، حتی الامکان قرض لینے سے بچتے ہیں تو کیا یہی حکمت عملی ہم اپنے ملک کے لیے استعمال  نہیں کرسکتے؟ سادگی اختیار کریں، اپنے ملک کی بنی چیزیں استعمال کریں، ہمارے حکمرانوں کو بھی اپناطرز زندگی بدلنا ہوگا۔ ملک کی خاطر اپنی بیرون ملک دولت پاکستان واپس لانی چاہیئے جو ممکن نہیں۔ کاش ہمارے حکمراں قرض لینے جائیں اور  قرض دینے والے کہیں ” آج نقد کل ادھار”، شاید اسی طرح سدھار آئے اور پاکستان قائم  رہے، آمین زید کی طرح کے انجام سے دوچار نہ ہو۔

حالیہ بلاگ پوسٹس