پچھلے دنوں جس سبزی نے مہنگائی کے چارٹ پر نمبر ون پوزیشن لی وہ ہے لال لال گول گول چمکتے دمکتے ٹماٹر، جی ہاں عام طور پر بیس تیس روپے کلو ملنے والا ٹماٹر ایک دم دوسو سے ڈھائی سو روپے کلو تک پہنچ گیا۔ کمال ہے قیمتوں میں اتنی تیزی سے ترقی تو کسی سبزی نے نہیں کی جس طرح ٹماٹر نے نام کمایا۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی قصہ، ہائے ٹماٹر کتنے مہنگے ہوگئے، ٹماٹروں کو آگ لگ گئی، ٹماٹر کے بغیر کھانا کیسے پکے گا، پیاز ٹماٹر کا کچومر کیسے بنے گا، کڑاہی چکن یا مٹن میں کیا ڈالیں۔
ٹماٹر کے دام بڑھنے کی بنیادی وجہ تو معلوم نہیں لیکن سطحی طور پر سب جانتے ہیں کہ بارش نے فصل خراب کردی تھی، پھر تہوار پہ ان سبزیوں کا مہنگا ہونا فیشن ہے، اب نئے حادثاتی وزیر اعظم کا حکم کہ بھارت سے ٹماٹر نہیں منگوائیں گے، اس لئے قیمتیں بڑھ گئیں۔ بہرحال کچھ ہو اس منے سے ٹماٹر نے بڑا وبال ڈالا، کھانوں کا مزا جاتا رہا، سبزی کھانے والوں کے لیے سبزی میں مزا نہیں رہا۔ ٹماٹر نے بھی ہمیں اپنا اتنا عادی بنا لیا کہ آملیٹ بھی بغیر ٹماٹر کے نہیں کھا سکتے۔ ٹماٹر ہر ڈش کا ایسا لازمی جزو بن گیا کہ جب سر پر ٹماٹروں کی مار پڑی تو ساری چوکڑی بھول کر، کبھی دہی کبھی لیموں کو آزمایا لیکن وہ مزا نہ پایا جو ٹماٹر میں ہے۔ آلو کی بھجیا بنائیں یا توری بھنڈی کی ترکاری، ٹماٹر کے بغیر سواد نہیں آتا۔ زبیدہ آپا کے ٹوٹکے بھی آزمائے لیکن چکن کڑاہی اور مٹن کڑاہی بغیر ٹماٹر بیوہ بیوہ لگے یعنی سالن میں سہاگ کی سرخی ہی نہیں رونق ہی نہیں، بیوہ کے ستے ہوئے چہرے کی طرح چکن کڑاہی منہ چڑارہی ہوتی اور تو اور بچوں کے لیے پیزا بنایا تو قیمے والے نان کی شکل اختیار کر گیا۔ کچھ حضرات نے مشورہ دیا کہ ٹماٹو پیسٹ استعمال کریں۔ اب جناب ہم جیسے روزانہ تازہ سبزی اور تازہ ٹماٹر استعمال کرنے والوں کو ٹماٹو پیسٹ کا کہاں مزا لیکن چلو سالن میں رنگ تو آیا۔
غضب تو اس دن ہوا جب چھٹی والے دن ماسی کو دروازے پر سبزی لینے بھیجا تو ایک پاؤ ٹماٹرکا بھی کہہ دیا۔ اس نے آکر کہا باجی ٹماٹر ساٹھ روپے پاؤ ہیں، ہمارے صاحب جو اخبار پڑھنے میں مگن تھے ایک دم ہوش میں آگئے اور چلا کر بولے لعنت بھیجو ٹماٹر پہ کوئی ٹماٹر کھانے کا حکم آسمان سے نہیں اترا، اب جو ٹماٹر سے ٹر ٹر شروع ہوئی تو ٹرمپ کے بیان تک کا احاطہ کر ڈالا۔ ہم نے بھی محاز سنبھال لیا کیونکہ یہ ٹماٹر سے ٹرمپ تک کا معاملہ تھا، ساری دنیا کی حکومتوں کی خوبیاں گناتے گناتے جب پاکستان پر پہنچے تو جھولی میں سو چھید ہوچکے تھے۔ اتنا ہی کہہ کر خون کے گھونٹ پی لیے کہ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جو اپنے عوام کو ٹماٹر بھی مہیا نہ کر سکے، یوں چھٹی کا دن ٹماٹر کی ٹر ٹر کی نذر ہوگیا اور بریانی بغیر ٹماٹر کے دم دینی پڑی.
ملک اسپین والے ٹماٹر کی فصل پکنے پر ٹماٹر کا تہوار مناتے اور ٹماٹر میں کھیلتے ہیں، ٹماٹر مارتے ہیں اور بے تحاشہ دیوانگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کاش وہ یہ ٹماٹر ہمارے ملک بطور امداد ہی بھیج دیں۔ ویسے سوچنے کی بات ہے ایک ادنی سی سبزی ٹماٹر بھی ہماری زندگی میں ہلچل مچا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی ٹماٹر کے چر چے خوب ہو ئے، لطیفے بھی بنے، ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ ہماری قوم بڑے برے واقعات پر دم سادھے خواب خرگوش کے مزے لیتی رہتی ہے لیکن ٹماٹر نے پوری قوم کو ٹر ٹر کرنے پر مجبور کردیا۔ خبر آئی ہے کہ اب ٹماٹر سستے ہورہے ہیں ایک سو ساٹھ روپے کلو لیکن یہ اتنے بھی سستے نہیں جتنے ہم سمجھ رہے ہیں۔ اللہ کرے ٹماٹر کی قیمت اور کم ہو جائے تاکہ غریب روٹی کے ساتھ ٹماٹر کی چٹنی تو پیٹ بھر کر کھا سکے اور ہم جیسے کٍڑاہی کا مزا لیں۔ ٹماٹر کی اہمیت ٹماٹر کی قیمت بڑھنے سے پتہ چلی، پتہ کیا چلی آنکھیں کھول دیں کہ
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn