شاید یہی آزادی ہے جس کے لیے پاکستان حاصل کیا، ہم جشن آزادی مناتے ہیں اور تھوڑی دیر کو تمام غم اور خوشی بھلا کر موج مستی کرتے ہیں لیکن یہ کیسی خوشی ہے جو ہمیں دائمی سکون نہیں دیتی اور ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ ہم "سترواں” یوم آزادی منارہے ہیں اور غریب کے پاس "ستر پوشی” کے لیے دوگز کپڑا میسّر نہیں۔ کیا پاکستان میں غریبی کا خاتمہ ہوگیا؟ تعلیم عام ہوگئی؟ کوئی بھوکا نہیں سوتا؟ ایمان کا بول بالا ہوگیا؟ سب کام ایمانداری سے ہورہے ہیں؟ ووٹ کا استعمال صحیح ہورہا ہے؟ ہماری اسمبلیوں میں صادق اور امین نمائیندے بیٹھے ہیں؟ پینے کا صاف پانی میسر ہے؟ بجلی کا نظام درست ہوچکا؟ علاج معالجہ مفت ہوگیا ہے؟ ہم نے قرض کا کشکول توڑ کر پھینک دیا ہے؟ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ستر سال گذرنے کے باوجود بھی کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ ہم نے اپنے وطن میں انصاف اور قانون کی بالا دستی نہیں ہونے دی، عورت کی عزت اسی طرح غیر محفوظ ہے جیسی غیر مذہبوں کے درمیان تھی۔ اسی طرح عورت کو عزت کے نام پر کاری کردیا جاتا ہے بلکہ اب تو پنچائیت کے فیصلوں پر لڑکیوں کی عزتوں کے فیصلے ہورہے ہیں۔ اسلام کے نام پر سیاست کھیلی جارہی ہے اور سیاست ایک دھبہ بن کر رہ گئی ہے۔
اس سب کو صحیح کیسے کیا جائے؟ کیا میرے اہل قلم اہل علم و دانش کوئی حل پیش کرسکتے ہیں؟
میری ناقص رائے میں سب سے پہلے تعلیم عام اور لازمی کرنی ہوگی۔ ملک کے بچے بچے کو لازمی اسکول بھیجیں، اس کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی سطح پر اقدامات کیے جائیں، حکومت میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی قرار دے، آگاہی مہم چلائی جائے، ہر پڑھا لکھا شخص خود پر لازم کرے کہ وہ ایک بچے کو تعلیم دے گا، تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ ہر شہری تعلیم سے بہرہ مند ہو اور شعور حاصل کرسکے۔ جب شعور حاصل ہو جائے گا تو ووٹ کا استعمال بھی درست ہو گا اور بہترین نمائندے اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔ اس سے قانون سازی، درست اور بہترین پالیسی فیصلوں میں مدد ملے گی۔ ستر سال میں بھی ہم اس قابل نہ ہوئے تو پاکستان کے حصول کا مقصد کیا رہ جائے گا؟ ہمیں قائداعظم کے پیغام کو عام کرنا ہے اور اس نظام کی ساری خرابیوں کو دور کرکے پاکستان کو ایک عالیشان ملک بنانا ہے۔
تعمیر بام ودر یونہی کرتے رہو عقیل
بہتر بھی ہو ہی جائے گا یکسر خراب تر
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn