جنگل تو یونہی بدنام ہیں ہمارے مملکت خدا داد پاکستان میں تو شاید جہالت اور لاقانونیت کی حد ہوچکی ہے. پچھلے دنوں ایک ایسا بھیانک اور شرمناک واقعہ ہوا جس نے ہر ایک کی گردن شرم سے جھکا دی اور سوچنے پہ مجبور کردیا کہ کیا ہم انسان ہیں یا جانور؟
واقعہ کچھ یوں ہےکہ ملتان کے ساتھ مظفرآباد میں راجہ پور میں آج سے دس بارہ دن پہلے بارہ سالہ لڑکی سے مبینہ زیادتی ایک مرد نے کی جس کے بعد اہل علاقہ نے چالیس افراد کی پنچائیت مقرر کی، پنچایت کے حکم پر ملزم کی بہن کو متاثرہ لڑکی کے بھائی نے زیادتی کا نشانہ بنایا، ویمن پولیس اسٹیشن میں لڑکی کی ماں نے مقدمہ درج کروایا کہ اس کی لڑکی کو اغواہ کرکے زیادتی کی گئی، جب تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ یہ مقدمہ انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہے کیونکہ اس سے پہلے اغواہ کار کی بہن کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اس لیے اس نے پنچایت کے حکم پر ایسا کیا. پولیس اب تک سولہ ملزمان گرفتار کر چکی ہے اور مرکزی ملزم مفرور ہے.
لعنت ہو ایسی پنچایت پر، زیادتی ایک مرد نے کی اور سزا اس کے گھر کی لڑکی کو ملی یہ کہاں کا انصاف ہے ظلم اور جہالت کی انتہا، اس طرح کے انصاف پر آسمان کیوں نہ گر پڑا، زمین کیوں نہ پھٹ گئی . اس ملک پاکستان میں حوا کی بیٹی پر اس قدر ظلم! کہاں ہیں ارباب اختیا ر، کیا انصاف کے نعرے لگانے والے سیاستدان انصاف دلا سکتے ہیں ہمارے ملک کی عدالتیں صادق اور امین کا فیصلہ کرنے میں مصروف ہیں، اس شرمناک اور بےعزتی کی حرکت کی پکڑ کب ہوگی ۔
ہم جو اپنے آپ کو مہذب گردانتے ہیں ترقی کے ڈھنڈورے پیٹتے ہیں ہمارے ہی ملک کہ ایک علاقے میں جہالت کا مظاہرہ ہورہا ہے، آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان اور جان کے بدلے جان تو ہے لیکن زیادتی کے بدلے زیادتی بھیانک ہے، کیا یہ بے جان کپڑے کی گڑیاں ہیں جنہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیا کس قدر جہالت ایک لڑکی کی زندگی تو برباد ہوئی دوسری کو بھی برباد کردیا جبکہ قصور دونوں کا نہیں تھا. بدلہ لینے کا سفاک عمل،وہ تو ہمت کرکے ویمن تھانے میں شکایت درج کروائی اور ملزمان پکڑے گئے اللہ کرے مرکزی ملزم بھی پکڑا جائے ،جب تک ان جانوروں کو عبرتناک سزا نہیں دی جائے گی اسی طرح کے جرائم ہوتے رہیں گے سزا دینے کا کام عدالتوں کا ہے ایسے کیسز کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے تاکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے.
اس طرح کے جرائم کی وجہ جہالت ہے، جہالت بھی ایسی جس نے حرام حلال اچھے برے کی تمیز مٹادی، جب تک جہالت نہیں دور کی جائے گی ایسا ہوتا رہے گا ۔دوسری بڑی وجہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونا اگر قانون پر عمل درآمد ہو اور عبرتناک سزائیں دی جائیں تو عین ممکن ہےاس طرح کے واقعات کی روک تھام ہو سکے ۔
امید ہے ان ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی آخری خبریں آنے تک چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے لیا ہے کاش ہم انصاف ہوتے دیکھیں آمین
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn