گھر میں کام کرنے والی پینو، طیبہ، آسیہ ہوں یا گھریلو ملازمین یا مکینک کی دکان پر کام کرنے والے چھوٹے، یا سڑک کنارے اور کچی آبادیوں میں بنے ہوٹلوں میں کام کرنے والے میدے، شیدے ، یا پپو یہ سب وہ بچے ہیں جو اپنے اپنے گھر کی گاڑی چلانے کے لئے اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹارہے ہیں. غریب کا چولہا جلتا ہی تب ہے جب ان کے گھر کا بچہ بچہ کام کرتا ہے، اگر گھر کا سربراہ کسی حادثے میں فوت ہو جائے یا بیمار ہو تب بھی یہی بچے اپنے اپنے گھروں کا چولہا جلانے کے لیے اس سماج کا ایندھن بنتے ہیں .
وڈیروں، زمینداروں، سرمایہ داروں اور امیروں کے گھروں میں ہر کام کے لیے الگ نوکر ہوتے ہیں، بھاگ دوڑ کے کاموں کے لئے بچوں کو ملازم رکھا جاتا ہے. اکثر گھروں میں چھوٹی بچیوں کو بچہ سنبھالنے کے لیے رکھا جاتا ہے کہیں گھومنے جائیں تو بچے کی پرام چلانا بھی ان کا کام ہوتا ہے سب تفریح کررہے ہوتے ہیں، برگر کھارہے ہوتے ہیں اور معصوم نوکرانی ان کا منہ تک رہی ہوتی ہے یا بےحس نظروں سے دیکھ رہی ہوتی ہے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنا بچا ہوا اسے دے دیتے ہیں . یہ وہ پیسے والے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زمینوں سے بچوں کو کام کرنے کے لیے لاتے ہیں یا پھر غریب ماں باپ زیادہ پیسہ لے کر ایک خاص مدت کے لئے کام پر رکھ لیتے ہیں. کہیں یہ کام ٹھیکے دار کرتے ہیں گاؤں میں بچے کے گھروالوں کو ایک مقررہ پیسہ دے کر شہر میں کام پر رکھوادیتے ہیں. ان گھریلو ملازمین میں لڑکے، لڑکیاں دونوں ہوتے ہیں. جو غریب شہروں کو ہجرت کرجاتے ہیں وہ ،ان کی بیوی بچے سب کام کرتے ہیں عورتیں گھروں میں ماسی بن جاتیں ہیں لڑکے مکینک کی دکان یا درزی، نائی کی دکان پر کام کرتے ہیں مرد دہاڑی کی مزدوری کرتے ہیں. کارخانوں، ملوں، گھریلو انڈسٹریز میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد کام کررہی ہے. پاکستان کے شہر حیدرآباد میں پانچ سے سات سال تک کے بچوں سے جبری طور پر چوڑیوں کے کارخانوں میں کام کروایا جاتا ہے. فشنگ کے شعبے میں زیادہ تر بلوچستان کا ساحلی علاقہ شامل ہے بچے کام کررہے ہیں. قالین بافی کی صنعت میں بچے کام کررہے ہیں، اورنگی ٹاؤن جہاں ہاتھ سے کڑھائی اور سلمے ستارے کا کام جو اڈے پہ بنتا ہے اس میں بھی بچوں کی بڑی تعداد کام کر رہی ہے، اسکے علاوہ اینٹوں کے بھٹوں پہ پورے پورے خاندان بچوں کے ساتھ کام کررہے ہیں. یہ چائلڈ لیبر کہلاتی ہے جو پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں ہے. ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق 1990 میں تقریباً گیارہ ملیں بچے کام کررہے تھے جن میں سے آدھے بچوں کی عمر سات سے آٹھ سال ہے اب سوچیں یہ تعداد بڑھ کر 12.5 ملین ہو گئی ہے. پاکستان میں کام کرنے والوں کی تعداد کا ایک چوتھائی حصہ بچوں کا ہے.
چائلڈ لیبر کا سب سے بڑا سبب غربت ہے۔ ایک مڈل کلاس بندے کی روزانہ کی انکم تقریباً چھ سو روپے ہے اگر اس کا خاندان دس اسے گیارہ افراد پر مشتمل ہو تو بتائیں اتنے افراد کس طرح گذارا کریں گے. غربت میں روز بہ روز اضافہ اس کا بڑا سبب ہے، مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، روپے کی قیمت میں کمی سے بھی غربت میں اضافہ ہورہاہے . غریب ماں باپ بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کام پر بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ پیٹ بھر کر کھا سکیں اور گھر کی گاڑی چل سکے. بڑے بڑے گھروں میں لڑکے لڑکیوں کو گھریلو ملازم کے طور پر لگا دیتے ہیں تاکہ ایک مستقل رقم ملتی رہے . اب ان بچوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے یہ دو چار حادثوں یا کیسز کی بات نہیں اکثر تو خاموشی سے تشدد کا شکار ہوتے رہتے ہیں. تشدد کے جو کیسز سامنے آتے ہیں وہ کسی طرح پیسہ کھلا کر ختم کر دیے جاتے ہیں. طیبہ کیس ہم بھولے بھی نہیں تھے کہ اختر کا کیس سامنے آگیا، اختر تو جان سے گیا کیس درج ہو گیا اب غریب ایک بار پھر بک جائے گا یا کوئی فیصلہ ہوگا یہ تو وقت بتائے گا لیکن غریب جان سے گیا کل کو دوسرا ملازم رکھ لیا جائے گا ، وہی رویے رہیں گے وہی سلوک.
آیئن پاکستان میں باقاعدہ چائلڈ لیبر کا قانون موجود ہے. تہتر کے آئین کے تناظر میں آرٹیکل 11 میں یہ بات واضح ہے کہ چودہ سال سے کم عمر بچہ نہ تو کسی فیکٹری میں کام کرے گا نہ ہی مائنز میں اور نہ ہی کسی دوسری قسم کی نوکری کرے گا، اسی طرح فیکٹری ایکٹ 1934 مزدوروں کے قانون میں بھی14 سال سے کم عمر بچوں کو مزدوری کی ممانعت ہے. اس کے باوجود ملازم بچوں پہ تشدد کے واقعات تسلسل سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں. بہت سے ایسے واقعات بھی ہیں جو پولیس میں رپورٹ بھی نہیں ہوتے اور غریب جان سے جاتا ہے یا تشدد کا نشانہ بنتا ہے. ایسے کیسز دھونس زبردستی سے خاموش کرادیئے جاتے ہیں یا مک مکا سے بات ختم کردی جاتی ہے. سب سے تکلیف دہ صورت حال وہ ہے جس میں کام کرنے والے بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں یہ بچے ایسی خوار زندگی گزار کر بڑے ہوتے ہیں تو معاشرے سے انتقام لینے کے لیے چور ڈاکو بن جاتے ہیں یا نشہ کرنے کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں.
چائلڈ لیبر پہ قابو پانے کے لیے سب سے پہلے قانون کی پابندی کروائی جائے اور قرار واقعی سزائیں دی جائیں تاکہ اس طرح کے شرمناک واقعات نہ ہوں، اس کے علاوہ حکومت کو تعلیمی اصلاحات کرنی ہوں گی اور میٹرک تک تعلیم کو لازمی قرار دینے کے بعد سختی سے عملدرآمد کروانا ہوگا. تعلیم کی روشنی سے ہی اس اندھیرے سے نجات ملے گی. سب سے اہم قدم غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا اگر غربت ختم ہوگی تب ہی چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہو گا. غریب بچہ بھی نارمل زندگی گذار سکے گا اس طرح ہم اپنے ملک کے بچوں کا مستقبل سنوار سکتے ہیں
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn