روزگار معاش سے تھوڑی سی اگر فرصت مل جاتی ہے تو اپنے گھر مہمان مسافر کی طرح آتے ہیں ۔ اب کے بار تو قسمت نے کچھ زیادہ ہی دست شفقت سر پہ رکھا اور پورے دو ہفتوں سے ہی گھر پہ آرام فرما ہیں۔ گرمی کی شدت کو دیکھتے ہوئے گھر نکلنے سے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ آج گاؤں کی بڑے والے مسجد جمعہ پڑھنے جائیں گے کہ وہاں شدت کی گرمی پہ قابو پانے کیلئے جنریٹر وغیرہ کا انتظام موجود ہے ورنہ ایسا نہ ہو کہ پچھلے جمعہ کی طرح اب کی بار بھی نماز پڑھنے جائیں تو ادائیگی نماز کوچھوڑ کے جائے مقدس پہ واپڈا والوں کو الفاظ غیر مقدسہ سے نواز دیں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ہم نے ادائیگی فرض کے لئے پاؤں مسجد کی دہلیز پہ ابھی رکھے ہی تھے کہ آنکھوں کے سامنےایک خوف اور خوشی کے ملے جلے منظرکا نظارہ ہو گیا۔ جیسے ہی مسجد میں داخل ہوا تو مسجد کے پنکھوں کے قوت حرکت کو میں نے اس انداز میں پایا کہ اندازہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ ابھی یہ اپنے قوت حرکت کو بڑھا رہے ہیں یا واپڈا والے ان کی نازک بدنی دیکھتے ہوئے آرام دینے لگے ہیں۔ خیر چند ساعتوں کے بعد منظر میرے لئے کرب ناک ہوتا جا رہا تھا اور جو خوشی کا عنصر تھا وہ بھی اب آخر سانس کو گلے لگا رہا تھا۔ بڑی بے دلی سے ہم نے مین ہال میں قدم رکھے۔ چونکہ لوگوں کے لئے تھوڑا پڑھا لکھا آدمی ہوں اور شریف بھی تو گاؤں کے چند لوگ ادھر ادھر کھسک گئے اور میرے لیے اگلی صف میں جگہ بنا گئے۔ اب اتنی محبت سے وہ بٹھا رہے تھے تو انکار کرنے کا عمل تھوڑا عجیب سا لگتا تو اس لئے ان کے ساتھ ہی اگلی صف میں بیٹھ گیا ۔
ابھی کچھ ہی لمحے ہی گزرے تھے کہ شدت لو سے دل بیٹھ سا گیا اور وقت رکتا ہوا محسوس ہوا۔ مولانا صاحب پتا نہیں کس موضوع پہ بیان فرما رہے تھے لیکن میری توجہ بالکل ان کی طرف نہیں جا رہی تھی ۔ بلکہ اسی طرح کی صورت حال دوسرے شاملین نماز کی بھی تھی کہ جب میں نے دیکھا تو کوئی دامن کے سروں کو ہاتھوں میں تھامے ہوئے خود کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا تھا تو کوئی منہ سے افففف اففففف اور فوو فوو کی صورت ہوا کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اندر کے درجہ حرارت کو تھوڑا سا کم کیا جا سکے۔ اب صورت حال یہ بنتی جا رہی تھی کہ اپنا تو حوصلہ پست ہوا اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران اندر سے آواز آئی کہ اللہ کے بندے گرمی تو برداشت نہیں ہوتی آگ کی تپش کو کیسے برداشت کرے گا۔ اسی بات کو سوچ کے ہم نے ارادہ بدل لیا اور واپڈا کے اکاؤنٹ میں اپنے طرف سے کچھ ایسے الفاظ کی ترتیب رکھی جو آپ جیسے شرفاء کےسامنے رکھنےکی بالکل بھی جسارت نہیں کر سکتا۔ بہرحال نماز تو ہم نے پڑھ لی اور فرض ادائیگی کے بعد سیدھا گھر کی طرف بھاگے اور آئندہ کے لئے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا ارادہ کیا ۔
تو ہوا یوں کہ بڑی والی مسجد پہنچتے ہی سیدھا نظر برآمدے کے پنکھوں پہ پڑی جو ماحول سے بے خبر نیچے بیٹھے نمازیوں میں رنگ نسل کی تمیز کئے بغیر ہی سب کو ایک جیسی ہوا دے رہے تھے ۔ یہ میرے منظر لیے باعث مسرت تھا۔ نمازیوں میں شامل ہوا تو توجہ مولانا صاحب کی طرف گئی۔ وہ مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت پہ بحث فرما تھے۔ مولانا صاحب کے بیان میں بڑی تاثیر تھی جو مجھ سمیت سب حاضرین بڑی خاموشی اور ادب سےسن رہے تھے۔ اب جماعت کھڑی ہونے کی باری تھی۔ سب لوگ صفوں میں کھڑے ہوگئے تو خیال آیا کہ خدا کو بھی اتفاق اور نظم و ضبط کتنا پسند ہے لیکن ہم لوگ ٹکڑے اور ٹولیاں بناتے نہیں تھکتے۔ امام صاحب نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی توخیال کے بندھن ٹوٹ گئے اور سب کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا۔ ذکر و دعا سے فارغ ہوا تو بڑی راحت محسوس کر رہا تھا کہ جب بندہ نماز پورے خشوع وخضوع سے ادا کر جاتا ہے تو بڑی راحت محسوس کرتا ہے اور یہ صرف نماز تک محدود نہیں۔ یہ فضا تب بھی بنتی ہے جب ہم کوئی اور نیک کام صدق دل سے کریں ۔ لیکن ہمارے نصیب میں شاید یہ فرخت احساس بہت تھوڑے لمحات کا مہمان تھا۔ یہ فرحت بخش احساس اس وقت احساس پریشانی کی شکل اختیار کرنے لگا جب نماز کے بعد جوتےپہننے کا وقت آیا، دیکھا تو چپل ندارد۔ بہت انتظار کیا کہ شاید مولانا صاحب کا بیان اثر کر جائے تو وہ میرےچپل واپس کردے لیکن بے سود۔
ہم نے ایک نظر نیزے برساتے سورج کو دیکھا اور پھر ایک نظر تپتی زمین کو دیکھا جو سورج کی محبت میں سرخ ہوتی جا رہی تھی ۔ مجبوراً ننگے پیر ہی قدم گھر کے اور اٹھنے لگے۔ جونہی تپتی زمین ہماری قدم بوسی کرنے لگی تو بے اختیار منہ سے ورد جاری ہونے لگا۔
ٰٰٰٰٰٰٰآسمان سے گرا ، کھجور میں اٹکا
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn