Qalamkar Website Header Image

پارلیمنٹ پر لعنت کرنے والوں کی ملامت کریں، لیکن

جون 2014 ء میں پنجاب پولیس نے دن دیہاڑے تقریباً 100 افراد کو گولیاں ماریں جس میں 14 افراد قتل اور دیگر شدید زخمی ہوئے ان میں سے اکثر افراد ساری عمر کے لئے معذور ہو گئے اس میں نہتے شہریوں کو گولیوں سے نشانہ بنانے کے علاوہ مسلم لیگ ن کی حکومت، خادم اعلی شہباز شریف نے گلو بٹوں کا بھی مناسب انتظام کیا تھا جنہوں نے املاک کو بھی نقصان پہنچایا اور گلوبٹ کا ڈنڈا لے کر گاڑیوں کے شیشے توڑنا کون بھول سکتا ہے؟ یہ افراد طاہرالقادری کے سپورٹرز تھے۔ آج ساڑھے تین سال بعد صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے اور چند مزید لاشیں گرنے کے بعد آرمی چیف کے تعاون سے ایف آئی آر درج ہوئی ہے اور شہباز شریف نے جسٹس باقر نجفی کمیشن بنایا اور تین سال بعد لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر “نامکمل” رپورٹ شائع کی گئی جس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون راناثناءاللہ کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آج تک کسی ایک ملزم کو سزا نہیں ہوئی ہے اور جو پولیس اور سول افسران اس قتل و غارت گری میں ملوث تھے ان سب کو ترقی دے کر شاباش دی گئی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو انصاف دلوانے کے سلسلے میں 17 جنوری کو لاہور میں آل پارٹیز جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مال روڈ پر منعقدہ اس جلسے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے کو چئیرمین آصف علی زرداری سمیت مرکزی قیادت نے شرکت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مرکزی قیادت سمیت شرکت کی اور مسلم لیگ ق سمیت سنی تحریک، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین، پاک سرزمین پارٹی اور درجن بھر سیاسی اور مذہبی پارٹیوں نے شرکت کی اور رہنماؤں نے تقاریر کیں۔ آل پارٹیز جلسے سے خطاب میں شیخ رشید نے پارلیمنٹ سے استعفی دیتے ہوئے کہا کہ "جس پارلیمنٹ میں ناموس رسالت محفوظ نہیں، اس پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہوں، ایسے وزیراعظم پر بھی لعنت بھیجتا ہوں اور وزیراعلی پر بھی لعنت بھیجتا ہوں” جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے شیخ رشید کی تائید کرتے ہوئے مزید کہا کہ "جو پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے تصدیق شدہ چور، لٹیرے اور جھوٹی قانون سازی کے ذریعے پارٹی سربراہ بنائے جنہوں نے غریب قوم کے تین سو ارب روپے چوری کرے باہر بھیجے اور جائیدادیں بنائیں ان پر واقعی لعنت بھیجتا ہوں”۔ جب کہ اگلے روز پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ "لعنت بہت ہلکا لفظ ہے میں نے خود کو سنبھالا ورنہ میں تو مزید سخت لفظ کہنے والا تھا”۔
“بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی”

کوئی جمہوریت پسند اور مذہبی رجحان کے حامل شخص شیخ رشید اور عمران خان کے پارلیمنٹ پر “لعنت” بھیجنے سے متفق نہیں ہوگا لیکن جو مدعا اُٹھایا گیا ہے اس کی دوسرے الفاظ سے تائید کریں گے۔ گناہ گار کو پتھر وہی مارتا ہے جس نے خود وہ گناہ نہ کیا ہو۔ مریم نواز نے عمران خان کو نازیبا تنقید کا نشانہ بنایا ہے محترمہ مریم نواز شریف کی خدمت میں صرف اتنا عرض ہے کہ نوازشریف کو یہاں تک لانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ خواجہ سعد رفیق جو بقول جاوید ہاشمی یتیموں کے پیسوں پر پل رہا تھا اب پیراگون جیسی کمپنیوں کا شئیر ہولڈر ہے اور ارب پتی بن گیا ہے۔ جو غلیظ زبان یہ خواجہ صاحب استعمال کرتے رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پاناما کیس کے گہرے ہوتے سائے - ایاز امیر

اماراتی اقامہ ہولڈر پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوا ہے، عمران خان اور شیخ رشید کو استحقاق کمیٹی میں بلائیں اور اگر نہ آئیں تو پکڑ کر لائیں۔ خواجہ آصف بھول رہے ہیں کہ ان کے پارٹی کے صدر اور نااہل وزیراعظم اور ان کی بیٹی مریم نواز سمیت مسلم لیگی رہنما روزانہ سپریم کورٹ اور دیگر اداروں کو لعن طعن کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

خواجہ آصف پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر جس بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں خواتین کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی نہایت محترم رکن اسمبلی جناب شیریں مزاری کی ذات کو نشانہ بنایا ہے کسی کو وہ بازاری زبان نہیں لگی اور کسی نے مذمتی قرارداد پیش نہیں کی۔ اسی خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر کہا کہ پانامہ چند دن کا شور ہے وقت کے ساتھ بھول جائیں گے۔ جس پر عمران خان نے دبنگ جواب دیتے ہوئے مشہور زمانہ الفاظ کہے تھے کہ "تمہارے باپ کا پیسہ ہے کہ بھول جائیں” اور خان صاحب نے وہی کیا، مسلم لیگ اور نوازشریف کو در در ٹھوکریں کھاتے اور عدالتوں کے چکر لگاتے مجیب الرحمن بنگالی یاد آ گیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ایک میٹر ریڈر سے ارب پتی کیسے بنا اس پر بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن جب یہ دوسروں کو جمہوریت پر بھاشن دیتا ہے تو سمجھ میں آتا ہے۔ کوئی خورشید شاہ سے پوچھ لے کہ قومی اسمبلی کی احتساب کمیٹی میں نوازشریف اور مسلم لیگ حکومت کے خلاف کتنے کیسز لائے ہیں؟ اربوں کی خورد برد ہوئی ہے، سی پیک کا کسی کو اتاپتا نہیں، قطر سے ایل این جی کی ڈیل کیسے اور کتنی میں ہوئی کبھی قومی اسمبلی میں شور سنا ہے؟ قاتل حکمران ہیں ماڈل ٹاؤن سے لے کر روزانہ بچوں کے ریپ کے بعد قتل شدہ بچوں کی لاشیں برآمد ہو رہی ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ اور قومی اسمبلی کے کوریڈور میں مسلم لیگ ن کے جاوید لطیف کے مراد سعید کو ماں، بہن کی گالیاں اور حالیہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اسمبلی کے فلور پر شہریار آفریدی کو مکے مارنا کون بھول سکتا ہے؟ کیا ایکشن لیا گیا؟ چور حکمران ہیں پانامہ لیکس، محلوں سے لے کر ایک معمولی ایم این اے بھی کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  مسجد کیوں بنالیں درجن بھر ایماں کی حرارت والوں نے؟

لٹیرے حکمران ہیں ملک کو لوٹ کر رقم باہر لے جا رہے ہیں۔ جھوٹے حکمران ہیں، ممبر پارلیمنٹ تو چھوڑیں قائد ایوان، وزیراعظم نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر جھوٹ بولا ہے اور ایک نہیں بار بار بولا ہے۔ نااہل حکمران ہیں، قومی اسمبلی میں کوئی ایک قانون بتائیں جو عام لوگوں کی بھلائی کے لئے بنایا گیا ہو؟ پارلیمنٹ سے باہر اے پی سی بلا کر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، پاک فوج کے آپریشن کے علاوہ حکمرانوں نے ایک پوائنٹ پر بھی عمل نہیں کیا ہے اور دہشت گردی کی حالات آپ سب کے سامنے ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کو مین سٹریم کیا جارہا ہے اور لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، دہشت گرد آزاد دندناتے پھررہے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ پاکستان میں انگریزوں کا سینکڑوں سال پرانا کریمنل اور جسٹس سسٹم چل رہا ہے آج تک آمر ضیاءالحق کے متنازعہ حدود آرڈیننس کو آئین کا حصہ بنانے کے علاوہ کوئی ڈھنگ کی قانون سازی نہیں کی گئی۔ فاٹا کی ایف سی آر سو سال پرانا ظالمانہ قانون آج تک مسلط ہے۔ لیکن لعنت پھر بھی پارلیمنٹ پر نہیں بلکہ ایسے قاتل، چور، لٹیرے، جھوٹے اور نااہل حکمرانوں پر ہے جو عوام کی منتیں کرکے اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں اور جب اسمبلی میں بیٹھتے ہیں پھر عوام کو کہتے ہیں کہ “میں تمہارے ووٹ پر پیشاب کرتا ہوں” اور یہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے ایک میٹنگ میں ووٹرز سے کہا ہے۔ اب جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ یہ لعنت واپس عوام پر ہی جاتی ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے قاتل، چور، لٹیرے، جھوٹے اور نااہل حکمرانوں کو ووٹ دینے کے بعد کندھوں پر بیٹھا کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے آرام دہ سیٹوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لئے منعقدہ جلسہ شیخ رشید اور عمران خان کے “لعنت” کی نذر ہوا۔ اور ماڈل ٹاؤن سانحہ پس منظر میں چلا گیا، بالکل اسی طرح جس طرح طاہر القادری اور عمران خان نے اچھے بھلے دھرنے کو پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر دھاوے کے نذر کیا تھا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس