پاکستان کی پہلی اور دو مرتبہ منتخب ہونے والی خاتون وزیراعظم اور بین الااقوامی سطح کی قد آور سیاستدان محترمہ بےنظیر بھٹو کو قتل ہوئے دس برس بیت گئے لیکن ریاست اصل قاتلوں تک پہنچنے میں مکمل ناکام رہی ہے یا قاتلوں کے سامنے اتنے بے بس ہیں کہ نام لینے سے بھی کتراتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اُسی دن سے ضیاءالحق کی آنکھوں کا کانٹا بن کر کھٹکتی تھیں جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا اور راسخ العقیدہ ضیاءالحق نے مذہبی حلقوں میں یہ بحث شروع کروائی کہ اسلام میں ایک عورت کی حکمرانی جائز ہے؟ لیکن بے نظیر پاکستان آئیں اور لاہور کا فقید المثل استقبال کوئی نہیں بھول سکتا۔ ضیاءالحق کا سیاسی جنازہ اُسی وقت نکل چکا تھا اور رہی سہی کسر جہاز گرنے سے پوری ہوئی جب ضیاءالحق اپنے ساتھیوں سمیت ہوا میں تحلیل ہوئے۔
پھر ضیاءالحق کے روحانی فرزند نواز شریف نے اسلامسٹس سے گٹھ جوڑ کیا اور عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن سے پیسے لے کر بےنظیر حکومت ہٹائی۔
جنرل مشرف جب پاکستان پر قابض ہوئے تو سیاسی خلا پر کرنے کے لئے آٹھ سال بعد بے نظیر نے وطن آنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو سیاسی دلدل سے نکالنے اور مذہبی جنونیوں کے شکنجے سے آزاد کرنے کی ٹھانی۔
جس دن بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا اُسی دن سے انہیں قتل کرنے کی پلاننگ بھی شروع ہوگئی۔ اور 18 اکتوبر 2002 کو کراچی آمد پر ہی بے نظیر بھٹو کی ریلی کو دو خودکش بموں سے اُڑانے کی کوشش کی گئی۔ بینظیر بھٹو قتل پلان مکمل طور پر تیار ہو چکا تھا اور پلان محترمہ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ شئیر بھی کیا گیا تھا۔ مقتدر ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے خود جا کر بےنظیر کو راولپنڈی لیاقت باغ جلسے میں جانے سے منع کیا اور ممکنہ حملے اور سازش کے بارے میں آگاہ کیا۔
لیکن بےنظیر بھٹو شہید ایک مکمل پیکیج (ڈیل) کے ساتھ پاکستان آئی تھیں جس میں شہید بےنظیر بھٹو کی سیکیورٹی کی ذمہ دار اور ضامن پاکستان کے ادارے تھے اس ڈیل پر ریاست کے مقتدر اداروں سمیت بین الاقوامی ضامنوں کے بھی دستخط تھے۔ لیکن بےنظیر بھٹو یہ بھول گئی تھیں کہ القاعدہ اور طالبان بھی انہی مقتدر اور بین الاقوامی طاقتوں کی پیداوار ہیں اور انہی کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور پھر پلاننگ کے تحت وہی ہوا، جس نے پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر یتیم کیا اور پاکستان ایک عظیم لیڈر سے محروم ہو گیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی چئیرپرسن شہید محترمہ بےنظیر بھٹو 27 دسمبر 2002 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک خودکش دھماکے میں قتل کر دی گئیں۔ جی ہاں وہی لیاقت باغ جہاں سے چند قدم دور بے نظیر بھٹو کے والد اور پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاءالحق نے طالبان کی بجائے منصف “مولوی” سے قتل کروایا اور وہی شاہی باغ جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اکبر خان نامی “نامعلوم” فرد نے پستول سے فائرنگ کر کے قتل کیا اور آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ نامعلوم اکبر خان کون تھا، کس کے کہنے پر قتل کیا گیا اور کیوں قتل کیا؟
چھ جے آئی ٹی ٹیموں، ایف آئی اے، سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی تحقیقات سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہے کہ بےنظیر بھٹو کو القاعدہ، طالبان اور ضیاالحق کے غنڈوں نے مل کر قتل کیا۔ پلاننگ کہاں ہوئی؟، شوریٰ میں کون شامل تھے جنہوں بےنظیر قتل کی منظوری دی؟، شوریٰ کے ہیڈ کون تھے؟ خودکش بمبار کون تھے؟ وزیرستان سے تعلق رکھنے والا پندرہ سالہ خودکش بمبار سعید عُرف بلال جس نے دھماکہ کیا اور اکرام اللہ جو ابھی تک غائب ہے اکوڑہ خٹک مدرسے سے کیسے راولپنڈی لائے گئے؟ کہاں اور کس کے ہاں ٹھہرے؟ حیران کن بات یہ کہ سہولت کار رفاقت اور حسنین پچھلے سال رہا بھی ہوئے۔ سب سوالوں کے جواب عدالت میں ثابت ہو چکے ہیں اور سب کچھ واضح اور عیاں ہے۔ پھر کیا مجبوریاں ہیں کہ ریاست اور پیپلزپارٹی اس گھتی کو سلجھانے میں دلچسپی نہیں لے رہی؟ آئیے اسی سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔
مشرف نے آنکھیں اور کان بند کی ہوئی تھیں، بےنظیر کو قتل ہونے دیا اور قتل کو چھپانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی۔ بے نظیر قتل کے ایک نامزد ملزم پولیس آفیسر کو اسی دن ترقی دی گئی جس دن بی بی قتل ہوئیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ دس سال سندھ حکومت میں رہنے کے باوجود پیپلزپارٹی 18 اکتوبر کراچی خودکش حملے کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہی جہاں سے 27 دسمبر راولپنڈی خودکش حملے کے تانے بانے ملتے ہیں اور پانچ سال مرکز میں حکومت کرنے کے باوجود شہید رانی کی روح کو انصاف دلانے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ بلکہ وہ لوگ حکومت میں شامل کئے جس پر خود بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی قتل کی ایف آئی آر درج کروا چکی تھیں۔
اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم جو کریمنل تحقیقات کے لئے بنائی گئی تھی اس کے میڈیا میں تبدیلی کر کے فیکٹ فائنڈنگ تک محدود کردی گئی اور رہی سہی کسر اس فیکٹ فائی مصنف رپورٹ پر اعتراض نے پورا کیا۔
پاکستان کے سابق وزیرداخلہ رحمن ملک کو سب کچھ پتہ ہے لیکن وہ کب زبان کھولیں گے، مجھے نہیں پتہ لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ رحمٰن ملک کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں یہ توقع نہ کریں کہ کچھ اُگلے گے۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں بتایا کہ “تحقیقاتی ٹیم جیسے ہی پاکستان پہنچی تو رحمن ملک نے ۷۷ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ ہمیں تھمائی کہ یہ آپ کی رپورٹ ہے اور آپ اس میں تبدیلی کر سکتے ہیں”۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ بے نظیر بھٹو کے لئے بیک اپ گاڑی بھگانے والے رحمان ملک کتنے خطرناک آدمی ہیں، لیاقت باغ میں جائے حادثہ دھونے اور بی بی کی پوسٹ مارٹم نہ کرنے جیسے فیصلوں میں بھی رحمن ملک کا نام آتا رہا ہے اور ان پولیس افسروں سے مکمل رابطے میں تھے جنہیں بی بی قتل کیس میں سزائیں ہوئی ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ پولیس آفیسرز ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکن پارٹی کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ پیپلزپارٹی کے جیالے جنہوں نے جان پر کھیل کر بےنظیر بھٹو کو کراچی میں بچایا اور آج بھی پیپلزپارٹی پر جان نچاور کرنے کے لئے تیار ہیں وہ پندرہ سال سے بےنظیر بھٹو کے قاتلوں کا نام آصف علی زرداری کے منہ سے سننا چاہتے ہیں۔ “نامعلوم” مصلحت کے تحت پیپلزپارٹی خود تو کسی کا نام لینے سے کتراتی نظر آتی ہے لیکن جب اقوام متحدہ کی تحقیقات میں نام سامنے آئے اس پر بھی “کسی ضامن” کے کہنے پر صدر ہوتے ہوئے ایک خط لکھ کر تحفظات کا اظہار کیا جس کا مقصد واضح ہے کہ “پیپلزپارٹی” کو بےنظیر کے قتل سے کوئی دلچسپی نہیں۔
پیپلزپارٹی کو اندازہ نہیں کہ سندھ تک محدود رہنے والی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا سندھ سے بھی صفایا ہو سکتا ہے۔ پنجاب اور خیبرپختون خواہ میں پیپلزپارٹی کا صفایا تقریباً ہوگیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ جیالوں کو نظرانداز کرنا اور بےنظیر بھٹو کیس میں پیپلزپارٹی کی عدم دلچسپی ہے۔
بےنظیر بھٹو کا سیاسی وارث بلاول بھٹو پیپلزپارٹی کے لئے نیک سگون ثابت ہوسکتا ہے اور پیپلزپارٹی میں نئی روح پھونک سکتا ہے لیکن دسں دفعہ لاؤنچ کرنے کے بعد پھر پس منظر میں چلا جاتا ہے۔
پیپلزپارٹی پر تنقید کا مقصد یہ نہیں کہ قتل بھی انہی کے رہنما ہوئے اور اب ذمہ دار بھی وہی لیکن اقتدار میں رہنے کے باوجود زبانوں پر تالے کیوں لگائے ہوئے ہیں؟ پانامہ لیکس، ویکی لیکس سمیت کئی سو ارب ڈالر کے فراڈ میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود مسلم لیگ جیسی پٹواریوں کی پارٹی بھی کھل کر ہر ادارے پر تنقید کررہی ہے، نوازشریف اور مریم نواز تو چھوڑیں ان کے تیسرے درجے کے لیڈرز بھی طاقتور ترین اور بااثر ترین اداروں پر حملہ آور ہیں۔
ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ پیپلزپارٹی بھی اداروں پر حملہ آور ہوں لیکن تحقیقات میں جو مجرمانہ غفلت ہوئی ہے، جو لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہیں ان کو بے نقاب کریں تاکہ پندرہ سال بعد بےنظیر بھٹو کی روح کو تو سکون ملے ان جیالوں کے بوجھل دل بھی پُرسکون ہوجائیں جو اب بھی شہید رانی کی یاد آتے ہی خون کے آنسو روتے ہیں۔
بلال بھٹو نے آج ہی سینئر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عوام کے حقوق چھیننے والے کسی بھی طاقت کے خلاف جا سکتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ پیپلزپارٹی، شہید رانی کے سیاسی وارث بلاول بھٹو کے حوالے کی جائے جبکہ بختاور اور آصفہ ان کی دست راست بنیں۔ سندھ اور پنجاب سمیت خیبرپختون خواہ میں پیپلزپارٹی کو دوبارہ منظم کریں اور اگلے انتخابات سے پہلے محترمہ بےنظیر بھٹو کے قاتل بے نقاب کئے جائیں خواہ وہ کتنے ہی طاقتور اور بااثر کیوں نہ ہوں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn