Qalamkar Website Header Image

فراق یار اور کہانی گری

تینڈا وعدہ ہا اساں جوٹ رہ سوںaamir
……..
میڈا نکیاں لاڈاں ڈهولنا
ساکوں کنڈیاں چے نئیں رولنا
……..
مجهے ترکی کے شاعر ، ناول نگار ، صاحب طرز ادیب شاعر ناظم حکمت راں کی ایک نظم
‘رجائیت پسند /امید پرست آدمی ‘
یاد آرہی ہے حالانکہ اس ٹپے میں ہجر ہے ، فراق ہے اور درد کی شدت ہے اور اس میں معروض و سماجی حالات کی وہ گہرائی بهی نہیں ہے جو ہمیں ناظم حکمت کی چند لائنوں کی اس نظم میں ملتی ہے
میں تین دن سے سخت تکلیف میں ہوں سن سٹروک کا شکار ہوکر چارپائی سے لگا ہوا ہوں اور درمیان میں کبهی کبهی جب معدہ باہر آتا محسوس ہوتا ہے اور خالی آنتوں کو زور لگانا پڑتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے اور اس دوران سر درد بهی ذرا چین نہیں لینے دیتا لیکن یہ جسمانی تکلیف اس باطنی تکلیف کے مقابلے میں کچھ بهی نہیں ہے جو میرے دل و دماغ کو مسلسل مبتلائے عذاب رکهے ہوئے ہے.
اس قدر جلدی جلدی مبتلائے رنج و بلا کرنے والی خبریں موصول ہوتی ہیں کہ کسی ایک خبر پہ جو پرسہ دینا بنتا ہے دے نہیں پاتا کہ ایک اور پرسہ لینے کاحق دار بن جاتا ہے اور اس دوران کبهی تاریخ سے نبرد آزما تو کبھی عمرانیات سے توکبهی نفسیات لیکن اس دوران جس کہانی کوبننے اور تخیل میں جس کے ساتھ کچھ لمحات میں گزارنے کا خواہش مند ہوتا ہوں وہ ہو نہیں پاتی
کافی دن ہوئے میں نے اپنے اندر سے وہ آواز برآمد ہوتے نہیں دیکهی جو مجهے وجد آفریں خیالات سے ملحق کرتی رہی ہے اور مرے دل و دماغ سے کچھ کہانیاں برآمد ہوتی رہی ہیں اور حد تو یہ ہے کہ جن کی قربت کے احساس سے میں کبهی محروم نہیں ہوا تھا ان سے دوری کا احساس بہت بڑھ گیا ہے. میں نے کسی سے وعدہ کیا تها کہ اس مرتبہ موسم بہار میں اس کے ‘صحن ‘میں بیٹھ کر اس سے براہ راست گفتگو کروں گا اور اس سے جابر کی طرح آرام و سکون سے یار من کے پاس رہنے کی نعمت سے محروم ہوجانے کے معانی ضرور پوچھوں گا اور یہ بھی سوال کروں گا کہ آخر وہ اپنی طرح اپنے چاہنے والوں میں دیومالائی سچ کی خیرات کرنے کے ساتھ ساتھ ‘تنہائی و بےگانگی ‘ کو دان کیوں کرتا ہے اور اس کا ہر عاشق اس قدر وہ کیوں بن جاتا ہے جسے سرائیکی زبان میں ‘لٹھا ‘ کہا جاتا ہے اور یہ لٹھے ‘ملال دائم ‘کی کیفیت میں حزنیہ موسیقی پہ کیوں گردان رہتے ہیں؟
کل ایک دوست کی نظروں میں ایسے سوال تھے کہ مجھے فوری طور پہ سمجھ آگئی کہ اس’ نے ایک صحرا میں خیمے کے سامنے بیٹهے اپنی جوتی مرمت کرتے ہوئے اپنے عم زاد کو یہ کیوں کہا تھا کہ جیسے یہ نعل بے قدر ہے ایسے ہی قوت واقتدار اس کی نظر میں بے قدر ہے …. تو اس عم زاد کے دل پہ بهی ایسے ہی غبار آگیا ہوگا اور اس غبار کی پرچهائی اس’ نے دیکھ لی ہوگی اور ‘اس’نے بتایا ہوگا کہ ‘اسے’ تو اپنی ‘تنہائی و بے گانگی ‘بہت عزیز ہے اگر اتمام حجت آڑے نہ آتی تو ‘اس’ کے لیے ‘وہ کنواں ‘ہی کافی تها حال سنانے کو ، بهلا جب ضربت لگتی ہو تو کون اپنی کامیابی کے اعلان کرتا ہے اور قسمیں کهاتا ہے ، ہاں ‘اس’ ہی نے قسم کهاکر اپنی ‘ظفرمندی ‘ کا اعلان کیا تها ، آج کل اس نے ‘مہجوری ‘مقدر کی ہے تو میں بهی اس پہ شاکر ہوا بیٹها ہوں اور حرف شکائت نہیں لاتا
میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ، ناظم حکمت کی بات کررہا تها ، ایک امید پرست آدمی کا تذکرہ کرتا ہے کہتا ہے
امید پرست
ایام طفلی میں بهی اس نے کبهی تتلیوں کے پر نہ اکهاڑے
بلیوں کی دموں سے ٹن کین نہ باندهے
جگنووں کو ماچس باکس میں بند نہ کیا
چلتی مکڑیوں کو پیروں تلے نہ روندا
وہ جوان رعنا بن گیا
یہ سب گن اس کے ساته ہی رہے
جب وہ بستر مرگ پہ تها
میں اس کے پہلو میں بیٹها تها
اس نے مجهے اک نظم پڑهنے کو کہا
جس میں سورج کا ذکر ہو اور سمندر کا
نیوکلئیر ری ایکٹرز اور سیٹلائٹس کا
انسانیت کے بڑے پن کا
ناظم حکمت
جب ہر سمت جبر و جور کا سماں ہو اور ہر طرف بس اقدار کے ملیامیٹ ہونے کی خبریں آرہی ہوں ایسے میں خالص جمالیات کی چاہ کرنا دل گردے کا کام ہوا کرتا ہے اور ایسی کہانی لکهنا جس کا انجام خوش کن ہوتا ہو اور وہ ‘آسمان کی طرف دیکهنے والے پاؤں کیچڑ میں دهنسائے لوگوں ‘کی خواہشات کی تسکین کا سبب بنتی ہو لکهنے کے لیے دل کی جگہ پتهرکا ہونا شرط ہے اور میں شرط پوری کرنے سے قاصر ہوں اور ایسا امید پرست ہونے سے بهی قاصر ہوں ، میں تو ایسی کہانی لکهنا چاہتا ہوں جس کا ایک کردار اٹک کاوہ 63 سال کا بوڑھا ڈاکٹر ہو جس کو دکان سے نکلتے سر میں گولی مار کر جب هھاک ہوتے دکھاوں تو اس کے دماغ میں چل رہی بےضرر سی سوچوں کو بهی دکهاوں کہ وہ گهر جاکر ‘آب جو ‘ پی کر جون کی سخت گرمی کا مقابلہ کرنے کا سوچ رہا تها اور اپنے بیڈ روم میں اے سی چلاکر ہلکی آواز میں میوزک آن کرکے کہوٹے کا ناول ‘برق ظلمات ‘پڑهنے کا ارادہ رکهتا تها اور میں لانڈهی میں مارے جانے والے نوجوان کو جب گولی لگی تو یہ سوچتا دکهاوں کہ اس مرتبہ اس نے اپنی گرل فرینڈ کو اتوار کو منوڑہ میں بلوچ بستی کے اندر ایک محفوظ جگہ ملنے کا پروگرام بنانے اور اسے پرپوز کرنے کا پکا فیصلہ کرلیا ہے جب اچانک ایک اچٹتی ہوئی گولی اسے لگی اور وہ بےجان و بے حس ہوگیا اور اسی وقت میں اس کے گهر میں اس کی ماں کو اپنے جوان بیٹے کے سر پہ جلد سے جلد سہرہ سجتے دیکهنے کی سبیل کرتے دکهاوں جب فضا گولیوں کی تڑ تڑ سے گونج اٹهے اور ساتھ ہی کچھ قدم پہ بنے ایک مدرسے کے سپیکر جاگ جائیں اور آوازیں آئیں کافر ، کافر …. تو خالص رومان اور خالص یوٹوپیا میری کہانی میں کیسے آئے گا جس میں ارمانوں کا خون نہ ہو اور اس میں ایک دیوار پہ ‘ش و س ‘ کے اتحاد کا نعرہ درج دکهایا گیا ہو اور سامنے سڑک پہ ‘ش ‘کے لہو سے ہونے والی روشنی کا تذکرہ نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے ؟ اور ابهی تو مجهے اس آدمی کی کہانی بهی لکهنی ہے جو جهنگ میں مخالفوں کے جلوس پہ حملہ آور ہوا اور اس نے ‘کافر ، کافر ‘کی گردان کرتے ایک بوڑهے کو اس وقت قتل کیا جب وہ بوقت ظہر اس بات پہ آنسو بہارہا تها کہ اس کے محبوب سبط پیمبر کو لشکر یزید نے عین سجدے میں شہید کرڈالا تها اور ایک نوجوان کو گولی اس وقت ماری جب بلوے میں ہر طرف ہونے والی ماردھاڑ دیکھ کر اس کا کمزور دل پہلے ہی بند ہوچکا تها اور اس کا بدن آخری تشنج لے رہا تها اور جب اس نے 30 سال سنٹرل جیل گزار لیے اور وہ باہر آنے سے پہلے اپنے لیڈروں کی بے ایمان فطرت دیکھ چکا اور اس پہ حقیقت واضح ہوگئی اور ایک دن اس بوڑهے کی بہو نے اسے جیل آکر معافی دی اور اسے بتایا کہ یہ اس کے شوہر کی آخری وصیت تهی جسے کل چوک میں ان دیکهی گولی کهاگئی تو وہ ضمیر کے بوجھ تلے دب کر سب کے سامنے کچھ کہنے کا خواہش مند تها تو جب وہ باہر آیا تو گهر بند ہوکر رہ گیا اور آنے والوں سے کہتا کہ ‘سب مایا ہے ‘ تو ایک دن سی ٹی ڈی والے آئے اور اسے لے گئے اور ایک ویرانے میں اس کے ہاتھ پیر باندھ کر جب اسے گولیاں ماریں اور اسے تڑپنے کے لیے چهوڑ دیا تو اس نے دیکها کہ کچھ جوان عمر کے نوجوان بهی تهوڑے فاصلے پہ گولیوں سے چهلنی تهے اور کچھ دور کهڑے محافظ کہہ رہے تهے کہ مستقبل کے کچھ دہشت گرد پرانے دہشت گردوں کے ساتھ ختم کردئے گئے تو میں اسے یہ سوچتا دکهادوں کہ اس کی بڑی خواہش تهی کہ وہ چیخ چیخ کر یہ کہے ‘وہ جو لینڈ کروزروں میں سفر کرتے ہیں اور ہر تقریر میں ‘کافر ،کافر ‘کرتے پهرتے ہیں اور جن کو کبهی ایوان وزیر اعلٰی میں شرف ملاقات بخشا جاتا ہے تو کبهی ریاض میں عشائیہ دیاجاتا ہے ان کو بهی چپ کرانے کی سبیل کی گئی ہے ؟ اور جہادی پراکسی کے کسی پیدل سپاہی کو جب ‘بوٹوں ‘ والے گهیر کرمار رہے ہوں تو عین وقت نزع میں ان کی آنکهوں میں کسی ستارے لگی وردی پہنے کسی بابو کی شبیہ دیکهوں جسے ترقی پہ ترقی اور پلاٹ پہ پلاٹ دیے جارہے ہوں ، میں اس لڑکی کے آخری وقت میں آنکهوں میں نقش خوابوں کو دکهانے کا خواہش مند ہوں جسے 60 سالہ بوڑهے کے ساتھ شادی سے انکار پہ جلادیا گیا اور وہ ‘سمعیہ’ جس نے اپنا آپ بچانے کے لیے ایک میڈیکل سنٹر کی دوسری منزل سے چهلانگ لگائی اور مرگئی اور پولیس و ججز اس پہ بدکاری کا الزام عائد کرکے ‘ریپ کرنے والوں ‘ کے لیے راستہ نکالنے کا سوچ رہے ہوں
میں ایسی کہانیاں لکهنا چاہتا ہوں اور ایسے کرداروں کے گرد فنٹاسی بننا چاہتا ہوں لیکن کردار کہیں قابو میں نہیں آتے، کہیں فنٹاسی بنتے بنتے رہ جاتی ہے اور اگر کردار زرا لچک دکهائیں اور فنٹاسی بننے میں کامیابی ہونے لگے تو کمبخت انگلیاں ساتھ چهوڑجاتی ہیں اور سر کا درد اور تیز ہوجاتا ہے اور معدہ الٹنے لگتا ہے.

حالیہ بلاگ پوسٹس