خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جو کسی بھی اچھے یا برے معاشرے کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے۔ انسانی زندگی پیدائش سے موت تک سیکھنے کے ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ جینیات، عقل ،تعلیم و تربیت ،رسوم و رواج ،عقائد ،غور و فکر ماحول اور معاشرہ یہ تمام وہ عناصر ہیں جو انسانی عقل کی نشونما اور شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں جن سے انسان کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ کیسا انسان ہے۔ انسان اپنی سوچ کا عکس ہوتا ہے جیسی سوچ ہوتی ہے ویسے رویے ہوتے ہیں اور جیسے رویے ہوتے ہیں ویسے عمل ہوتے ہیں۔ انسان کی سوچ بنتی کیسے ہے اور اسے تبدیل کیسے کیا جاسکتا ؟
زندگی کی ہر سحر کچھ سکھا کر اور ہر ڈھلتا سورج انسان کو کوئی نہ کوئی تجربہ دے کر جاتا ہے۔ اچھی تعلیم اور تربیت ہی انسانی سوچ کو تبدیل کر سکتی ہےجو انسان کو نہ صرف شعور دیتی ہے بلکہ انسانی عقل کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ انسان بہتر طریقے سے سوچنے اور چیزوں سمجھنے لگتا ہے اور اسے اہم بات تسلیم کرنا ہیں اور جس انسان نے تسلیم کرنا سیکھا گویا وہی کامیاب انسان ہے ۔انسانی تاریخ نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ہر دور میں انسان کی پہلی فوقیت امن رہی ہے کیونکہ امن ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے انسانی اور معاشرتی ترقی ممکن ہے ۔معاشرے کی ترقی میں امن کا یقینا بہت بڑا کردار ہے لیکن اس سے بھی بڑا کردار میرا اور آپ کا ہے ۔ ہم سب کا اور ہمارے خاندانوں کا ہے کہ جن پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ امن کو برقرار رکھنے اس کے تحفظ اور فروغ میں اپنا کردار ادا کریں ۔امن کا سفر ایک فرد سے اور اس کے کنبہ سے شروع ہوتا ہے جس کے لیے تعلیم و تربیت اور شعور کا ہونا بہت لازمی ہیں ۔
ارسطو کا قول ہے کہ تم مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دو میں تمہیں ایک تعلیم یافتہ قوم دوں گا۔ یہاں تعلیم سے مراد حقیقی سمجھ آگاہی اور شعور ہے۔ کسی بھی چیز کو صرف جان لینا کافی نہیں بلکہ اس کی تحقیق لازمی ہے۔ اور اس کی گہرائی انسان تب ہی جان سکتا ہے جب وہ اسے وقت اور توجہ دے ۔امن کا یہ سفر سب سے پہلے ہمارے گھر سے شروع ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے بچے کو صحیح تربیت، معیاری تعلیم اور چیزوں کو جاننے آگاہی ،شعور اور ان کو ایک سیٹ کرنے کی صلاحیت اپنے بچے میں پیدا کرتے ہیں تو وہ بچہ بآسانی خیرو شر میں فرق کر سکتا ہے۔ اپنے بچوں کو بری عادات، معاشرتی برائیوں سے بچنے میں مدد کرنی چاہئے۔ اپنے بچوں کو وقت دینا اور ان کی سرگرمیوں کو دیکھنا والدین کا فرض ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات بچہ اگر کوئی بڑی غلطی کر بھی لے تو والدین بجائے اس کو روکنے ٹوکنے کے ان پرپردہ ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ بری راہ اختیار کرتا ہے اور چھوٹی چھوٹی غلطیاں اسے غلطیاں نہیں لگتی ہیں۔ بعد میں وہی غلطیاں گناہوں میں تبدیل ہو جاتی ہے جن کے نتائج پورے معاشرے کو بھگتنے پڑتے ہیں۔
بہترین معاشرہ بہترین خاندانی نظام پر منحصر ہوتا ہے۔ اور بہترین خاندان افراد کی بنیادی ذمہ داریوں ادائیگی کے سبب تشکیل پاتا ہے۔ ہم بیک وقت کسی بھی خاندان میں مختلف حیثیتوں کے مالک ہوتےہیں۔ ہم اولاد، بہن بھائی، والدین اور ایسے ہی کئی رشتوں میں خاندان سے منسلک ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر حیثیت میں اپنی ذمہ داری بطریق احسن نبھائیں۔ والدین پر لازم ہے کہ جدید تقاضوں کی روشنی میں اولاد کی تربیت کریں۔ انھیں بہترین تعلیمی سہولیات دیں۔ اسی طرح بچوں پر لازم ہے کہ وہ والدین کی رہنمائی سے استفادہ کریں اور ایک مثالی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ معاشرے کی تشکیل میں ہر فرد کی حیثیت اہم ہے۔ ہر ایک شخص معاشرے کی اچھی یا بری تشکیل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اسی لیئے ہر فرد کو اہمیت حاصل ہے۔ اقبال اس پر یوں گویا ہوئے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn