سب جانتے ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ زمین کی گردش کے ساتھ وقت، زندگیاں ،انسانی حالات، مناظر ، دنیا کا نظام تبدیل ہوتا ہے۔ کبھی وقت ہمارے حق میں ہوتا ہے اور کبھی ہمارے حق میں نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ میں تمہیں جان مال اور اعمال سے آزماؤں گا اور فتح اسے کی ہوگی جوصبرکرنے والا ہوگا اور پرہیز گار ہوگا ۔ یہ دنیا کا نظام ہے کہ آزمائشیں اور انسان پر کڑا وقت آتا رہا ہے ۔ انسان ان حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کرتا ہے اور جیت کو اپنا مقدر مانتا ہے مگر کبھی کبھی انسان کو حالات ایسے مار دیتے ہیں کہ وہ دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ایک دوسرے کی مدد کرنا غریب مسکین ضعیفوں کا خیال رکھنا یہ تو اسلام کی روایت ہیں۔ حقدار تک پہنچانا اور برے وقتوں عزیز و اقارب اور معاشرے میں سفید پوش لوگوں کا خیال رکھنا اسلامی تعلیمات ہیں۔ کیا ہم واقعی اسلام کی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ؟ اور کیا ہم ایسے رویے برتتے ہیں کہ جن سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے اور دوسروں کا حق ان تک پہنچ جائے ؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر طرف جھوٹ اور دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے اور لوگ دوسروں کا حق مارنے کو گویا برائی ہی نہیں سمجھتے۔ دوسروں کا مال لوٹتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔
ایسے حالات میں جہاں غریبوں کی مدد کرنا ہم پر فرض ہوتا ہے اور ان کو ہماری ضرورت ہوتی ہے ہم خود غریب بن کے لائنوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں مجبوری سے فائدہ اٹھانا تو ایک عام سی بات بن چکی ہے ۔ حالیہ دنوں میں جب کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو ہمارے معاشرے میں بہروپیے اور دھوکے باز لوگ اپنے رویوں سے باز نہیں آرہے ہیں ۔ آئے روز موبائل فون پر میسج اور سوشل میڈیا پر بے شمار لنکس گردش کر رہے ہوتے ہیں کہ اس لنک پر کلک کرنے سے یا فلاں میسج پر جواب دینے سے آپ کو اتنے پیسے ملیں گے یا آپ کے شناختی کارڈ یا موبائل نمبر پر بائیک یا گاڑی نکلی ہے اور بہت سارے سادہ لوح لوگ ان کا ہدف بن جاتے ہیں اور انکے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ زندگی غریبوں کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب کرونا وائرس کے دوران پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہوا تھا اور پرائم منسٹر احساس پروگرام کے ذریعے 12 ہزار روپے ضرورت مند افراد کو مل رہے تھے۔ میں نے بہت سے غریب ایسے دیکھے جن کے پاس شناختی کارڈ کا نمبر سینڈ کرنے کے لیے بھی موبائل فون تک میسر نہیں تھا اور بہت سے لوگوں کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ ان کو پرائم منسٹر کی طرف سے 12 ہزار روپے مل رہے ہیں۔ تب میری ملاقات چند ایسے لوگوں سے ہوئی کہ جن کے پاس کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں تھی اور پاؤں میں جوتے نہ تھے۔ ایسے ایسے حقائق کا سامنا ہوا کہ آنکھیں نم ہوئیں اور دل خون کے آنسو رونے لگا۔
ایک ضعیف عورت میرے پاس آئی اور مجھے احساس پروگرام رجسٹریشن کے لیے اپنے موبائل فون سے شناختی کارڈ کا نمبر سینڈ کرنے کا کہا اور دو دن بعد دوبارہ اماں جی گھر آئیں اور کہا کی بیٹا میری مدد کرو ۔ "بتائیں اماں جی میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں”۔ اب ماں جی نے پھر بتایا کہ ان کا خاوند اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے اور موبائل میں پیسے ان کے خاوند کے نام آئے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بار انکو نادرا کا چکر بھی لگانا پڑا ہے ان کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا ایک پرائیویٹ سکول میں چوکیداری کر رہا تھا لیکن کرونا وائرس کی وجہ اسکول بند ہوئے تو اس کو بھی نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ ان کے گھر میں دس افراد ہیں اور کمانے والا صرف ایک وہ بھی اب آ کے گھر بیٹھا ہے گھر کے حالات بہت نازک ہیں ۔ کبھی پیٹ بھر جاتا ہے تو کبھی نہیں۔ کبھی کسی ہمسائے سے تھوڑی مدد ملتی ہے ۔ بس مشکل سے زندگی کے دن کٹ رہے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں ہمارے ہمسائے میں لوگ کس قدر اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اور جن کے پاس یہ سب کچھ ہے وہ بھی چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے احساس پروگرام کے 12 ہزار روپے ان کے بھی ہاتھ لگ جائیں بڑے فخر سے وہ اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن وہ اصل حقدار کو بھول جاتے ہیں۔ احساس پروگرام کے سلسلے میں بھی صاحب حیثیت لوگوں نے بڑے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کی اور کسی حد تک وہ کامیاب بھی رہے ہیں ۔
ہمارے ملک میں روزگار اور نوکریوں کی پہلے سے کمی ہے اور کرونا کی وجہ سے ایک بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ایشین ڈیولپمنٹ بنک کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 1.5 ملین سے 2.3 ملین افراد کرونا وائرس کے دوران نوکریوں سے نکالے گئے ہیں۔ اب ان حالات میں غریب مسکین افراد کی مدد کرنا ہم پر فرض ہے اور الحمداللہ پاکستان میں صدقات عطیات اور کسی دوسرے کی مدد کرنے کا بڑا رجحان پایا جاتا ہے اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وفاقی ادارہ برائے اطلاعات و نشریات کے تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریبا 554 ارب روپے سالانہ عطیات کی مد میں دیے جاتے ہیں جوکہ قابل تعریف بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کہیں صدقات عطیات جو ہم اپنے دلی سکون کیلئے دیتے ہیں وہ کہیں کسی اور کا چین خراب تو نہیں کر رہے۔ شدت پسند عناصر میں استعمال تو نہیں ہو رہا۔ یہ سب ماضی میں ہوتا آیا ہے تو اب کیا ہم اس ڈر سے صدقات عطیات اور امداد دینا چھوڑ دیں؟ ہر گز نہیں۔ صدقات اور عطیات دل کھول کر کرے دیکھ بھال کریں اور حق اصل حقدار تک پہنچائیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn