کرونا وائرس اور عوامی رویے ہماری روزمرہ زندگی، معاشرتی سوچ اور رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ انسانی تاریخ نے بے شمار پیچ و خم دیکھے ہیں۔ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہے۔ انسان نے، بحیثیت مجموعی، حالات کی ستم ظریفیوں کا مقابلہ کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جب سے اس دنیا اور انسان کی شروعات ہوئی ہے روئے زمین پر بہت سے وبائیں اور آفات وقتاً فوقتاً آتی رہی ہیں۔ کئی وبائیں کچھ وقت کے لیے رہی ہیں اور انسان اس کا مقابلہ کرتا رہا، کئی وبائیں ہمیشہ کے لیے اس زمین کا حصہ بن گئیں اور انسان کے ساتھ رہنے لگیں۔ ان میں سے کئی وبائیں زمین پر پھیل گئیں جن کے سبب لاکھوں کروڑوں زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں۔
سابقہ دور میں سب سے بڑی وبا ہسپانی فلو رہی جو 1918 میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔ یہ وبا جنگ عظیم اول کے دوران پھیلی۔ اس سے دو سال میں 5 کروڑ انسان متاثر ہوئے اور 50 لاکھ لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس وبا کو عالمی وباؤں کی ماں کہا جاتا رہا ہے۔
موجودہ دور میں 2019 کے اواخر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی کرونا نامی وبا نے کچھ مہینے میں دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وبا سے اب تک تقریبا 9 کروڑ لوگ متاثر ہو چکے ہیں اور اس سے مقابلہ کرتے ہوئے 19 لاکھ لوگ اپنی زندگی گنوا چکے ہیں۔ بیسویں صدی کے بعد کرونا وائرس اور عوامی رویے کا نیا چہرہ ہمارے سامنے آیا جس میں انسان نہ صرف سماجی طور پر قید ہو کر رہ گیا بلکہ پوری دنیا کی معیشت بھی متاثر ہوئی۔
دنیا کے زیادہ تر افراد یہ نہیں جانتے کہ ’عالمی وبا کیا ہوتی ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟
وبا کا معنی ہے ایسی بیماری جو کسی ایک انسان یا جانور سے دوسرے میں پھیلے۔ جب کوئی وبا کسی ایک انسان سے کئی انسانوں میں اور ایک علاقے یا ملک سے دوسرے ملکوں میں تیزی سے پھیلے اور ہنگامی صورت حالت پیدا ہو جائے تو ایسی وبا کو عالمی ادارہ صحت عالمی وبا کا نام دیتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت جب بھی کسی وبا کو عالمی وبا قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پوری دنیا اس سے متاثر ہو سکتی ہے اس لیے ہر فرد اس سے نہ صرف اپنی زندگی کو بچائے بلکہ سب کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کرونا وائرس اور عوامی رویے کا ایک تعلق یہ بھی ہے کہ عوام جتنا سنجیدہ رویہ اختیار کریں گے، اتنا ہی یہ وائرس قابو میں آئے گا۔
پاکستان میں اس وقت کورونا کی دوسری لہر اپنی شدت میں ہے۔ جو لوگ ان سے متاثر ہیں وہ اس وائرس کے متعلق مختلف رائے رکھتے ہیں۔ جو کوئی اس وبا کا حملہ برداشت کر چکا ہو، کرونا کو اتنی ہی گہرائی سے سمجھتا اور مانتا ہے۔ جب کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کو محض ایک پروپیگنڈا سمجھ رہی ہے اور اسے ماننے سے انکار کر رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہم نے کمیونٹی کے کچھ لوگوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کرونا محض فنڈز کے حصول اور مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ حقیقت میں تو کورونا ہے ہی نہیں۔ یہ محض ایک ڈھونگ ہے۔ کرونا وائرس اور عوامی رویے کا یہی تضاد وبا کو پھیلانے کا ایک بڑا سبب بن رہا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جب کرونا شکل بدل بدل کے آرہا ہے اور لوگوں کے دل و دماغ سے اس کا خوف بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ خوف ختم ہونا اچھی بات ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ لوگ SOP کو فالو کرنا بھی چھوڑ رہے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ پڑھے لکھے عوام کی ایک بڑی تعداد بھی SOP کو خیرباد کہتی نظر آتی ہے اور آئے روز ملک میں کورونا کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ مگر عوام کے روئیوں میں سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کی ہم سب اپنے اپنے رویوں پر غور کریں اور کرونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم خود کو اور دوسروں کو اس وبا سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ COVID-19 کے حوالے سے بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں تاہم یہ کس حد تک درست ہے اس کا اندازہ ہم تبھی لگا سکتے ہیں جب ہم خود اس کی تحقیق کریں اور حقائق کو جاننے کی کوشش کریں۔ سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے سے گریز کریں اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ حکومت وقت کی طرف سے بتائی گئی تمام احتیاطی تدابیر پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو کر ہم اس وبا سے خود کو، اپنے پیاروں کو اور دوسروں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ کچھ مفاد پرست کرونا وائرس کے حوالے سے جعلی خبر پھیلا رہے ہیں اور مختلف قسم کے انعامات اور نقد رقوم دینے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف لنکس اور موبائل فون پر مختلف میسجز موصول ہو رہے ہیں۔ عوام الناس کو ان سب سے باخبر رہنا چاہیے اور کسی بھی قسم کی لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے جس کے نتائج پھر عوام کو بھگتنا پڑیں۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn