ٹھنڈی ہوا درختوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے میں مگن تھی ،درخت جھوم جھوم کر اپنی نئی صبح کو سلام کا نذرانہ پیش کررہے تھے، بادل کی چند سفید آوارہ ٹکڑیاں گہرے نیلے رنگ کو چیرتے ہوئے اپنے سفر کی طرف رواں دواں تھیں ،سورج بھی اپنے نئے جنم کے لیے بےتاب و بےچین تھا اور بادلوں سے بار بار راستے کی درخواست کررہا تھا بادل اپنی خوبصورتی پہ نازاں تھے اور سورج کو نو لفٹ کا سائن بورڈ دکھا رہے تھے.
کوے ، چڑیاں ، لالیاں اور اس سے ملتے جلتے پرندے پورے زور و شور کے ساتھ صبح کو خوش آمدید کررہے تھے مگر دور سے آتی کوئل کی بےچینی سے بھری کوک نے اپنے ہی سر بکھیر رکھے تھے۔ وہ بال کھولے دیوار پہ سرٹکائے نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی اس کی اداس آنکھیں اس حسین منظر کو اپنے اندر اتارنے میں مصروف تھیں۔
یہ جگہ اس کے لیے جنت سے کم نہ تھی مگر جونہی وہ اس جنت کے نشے میں خود کو مسرور پاتی اسے کوئی نہ کوئی تلخ بات جو اکثر دوسروں کی ذات سے متعلق ہوتی اس کا اپنی ذات سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہوتا تھا اسے اس مسحور کن منظر سے بد دل کردیتی اور وہ اس حسین و دلکش مناظر سے لطف و اندوز ہونے کی بجائےگہرے غم میں مبتلا ہوجاتی اور اپنی اس حرکت پر ہمیشہ کی طرح خود کو لتاڑتی مگر آگے سے ایک منہ چڑاتی مسکراہٹ ملتی جو اسے جلانے کے لیے کافی ہوتی وہ ہمیشہ کی طرح سوچتی.
اب وہ صرف اپنے بارے اور اپنی زندگی کے بارے سوچے گی اور مفت کی پریشانیوں میں مبتلا نہ ہوگی مگر یہ سوچتے ہوئے اسےاپنے اس خوبصورت جھوٹ پر کبھی ہنسی اور کبھی رونا آتا ۔کبھی کبھار تو وہ روتے ہوئے خود سے مخاطب ہوتی وہ کسی ڈاکٹر سے اپنے لیے بےحسی کی دوا خریدے گی اور اس خانہ جنگی سے خود کو آزاد کرلے گی مگر
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn