’’اس بار عید پر قربانی کے لئے بکرا لے کر آئیے گا‘‘ یہ سن کر شوہر نے کہا،’’ کیوں بیگم، ہمیشہ کی طرح گائے میں حصہ لے لیتے ہیں‘‘؟ بیگم نے کہا ،’’ نہیں بہت ہوگیا۔ ہر بار گائے میں ہم سمیت پانچ حصہ دار ہوتے ہیں، مگر تقسیم کے وقت چاروں پائے میں سے ایک بھی ہمیں نہیں ملتا۔ کھال بھی کوئی اور لے جاتا ہے۔ کلیجی ہمیں نہیں ملتی۔ مغز کوئی اور لے اڑتا ہے۔ گائے کو چارہ ہم دیتے ہیں۔ رکھوالی ہم کرتے ہیں۔ قصائی کے نخرے ہم برداشت کرتے ہیں۔ دن رات ہمارے خراب ہوتے ہیں۔ باقی سب آتے اور گائے کے ساتھ سیلفیاں بناکر چلے جاتے اور وہ اور ان کے بچے فیس بک پر تصویر کے ساتھ لکھتے۔ ڈیڑھ لاکھ کی لی ہے۔ کیسی ہے۔ پھر شیئر اور لائک کرنے کا حکم دیتے۔ یہ نہیں بتاتے کہ حصے کی ہے۔ اس لئے اس سال اپنا قربانی کا بکرا‘‘۔ شوہر بولے’’ ہاں تو اس طرح ہم نے دو قربانی کی۔ ایک قربانی کے جانورمیں حصہ ڈال کر اور دوسری تقسیم کے وقت‘‘۔ بیگم بولیں،’’ ہم ہمیشہ تقسیم کے وقت قربانی دیتے آئے ہیں مگر تقسیم کے وقت قربانی دینے والوں کو ہی نظرانداز کیا جاتا ہے‘‘۔یہ سن کر شوہر نے زور دار نعرہ لگایا’’ پاکستان زندہ باد‘‘۔ بیگم نے بھی جواب میں اس سے بڑھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔
ٹیسٹ میچز میں دن کے اختتام پر اگر وکٹ گر جائے تو کسی بے قاعدہ بلے باز کو نائٹ واچ مین کے طور پر بھیجا جاتا ہے۔ یہ قربا نی کا بکرا ہوتا ہے۔ ہمارے کئی وزراء اعظم بھی قربانی کا بکرا بنتے رہے۔
چالیس سال کا ہوگیا مگر عمرفاروقی ابھی تک شرمیلا ہے۔ انتہائی شرمیلا۔ اتنا شرمیلا کہ دوست اسے پیار میں شرمیلا فاروقی کہتے ہیں۔ یہ اپنے دوستوں سے کہنے لگا کہ چلوچلو۔ منڈی چلو۔ دوستوں نے کہا کہ تم جاؤ ہم تو کراچی میں عید کریں گے۔
سارے دوست مل کر قربانی کا بکرا لینے گئے تو گائے، بیل، اونٹ کو دیکھنے لگے۔ ایک شامیانے تلے ملک بھر سے جانور لائے گئے تھے۔ اسلام آباد کا بیل بہت تگڑا تھا مگر یہ قربانی کے لیے نہیں تھا کہ اسلام آباد والے قربانی مانگتے ہیں۔ دیتے نہیں۔ پھر اس میں ایک خامی بھی تھی کہ یہ ایک کان سے سنتا تھا اور دوسرے سے نکال دیتا تھا۔ دو بکروں کو ایک ساتھ دیکھ تو بتایا گیا کہ ان کا تعلق لاہور سے ہے دونوں، میں، میں کرتے رہتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں انہیں دیکھ کر ’گوگو‘ بھی بولتے ہیں۔ ان دوبکروں کی جوڑی کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ دونوں مارشل لاء کے دنوں میں پیدا ہوئے۔ انہیں آپ مارشل لاء کی پیداوار بھی کہہ سکتے ہیں۔
کوئٹہ کا بکرا کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کوئی اس کی نہیں سن رہا۔ سب اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر آگے بڑھ جاتے۔ پشاور کا بکرا بہت ڈھونڈا۔ نہیں ملا، پتہ چلا کہ دھرنے میں گیا ہوا ہے۔
ایک بکرے کو پریشان دیکھا۔ جس پر لکھا تھا یہ بکرا کس کا ہے؟؟معلوم ہوا کہ کراچی کا ہے۔ ف کی بولی بولتا ہے مگر یہ نہیں پتا کہ کس ف کا ہے۔ (الطاف، آفاق، فاروق، مصطفی) ۔
اب یہ سب اپنے دوست کے لئے قربانی کا بکرا دیکھنے لگے۔ منہ کھول کر دیکھ بھی رہے ہیں اور پوچھتے بھی ہیں۔ دو دانت ہیں نا؟ ابھی بکرے کے کان پکڑ رہے ہیں۔ اس کی قیمت سنیں گے تو اپنے کان پکڑیں گے۔ زندگی بھر دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے ولے بکرے کی ٹانگوں پر جرح کررہے ہیں۔ بہت سے بکرے کی ٹانگیں اٹھوا رہے ہیں۔ انہیں مرد بکرا چاہیے۔ ارے ۔ آنکھیں دیکھنا تو رہ ہی گئیں اور بقول شاعر
آنکھیں بڑی پاگل ہیں ہر بات بتاتی ہیں
جو ہونٹ نہ گا پائیں وہ گیت سناتی ہیں
ان کا ہی نہیں، جانوروں کی منڈی میں آنے والا ہر ایک ایسا ہی کررہا تھا اور کرنا بھی چاہیئے، کیوں کہ معاملہ ہے قربانی کے جانور کا۔ انتہائی درجے کی احتیاط، صلاح مشورے، زبردست جانچ پڑتال، کہیں اس میں کوئی عیب تو نہیں، خوب چھان پھٹک۔
عوام قربانی کے جانور وں کے انتخاب میں جس سنجیدگی اور اعلیٰ معیار کا مظاہرہ کرتے ہیں اگر ایسا ہی برتاؤ اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت کریں تو انہیں کبھی قربانی کابکرا نہ بننا پڑے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn