اکثر ممالک میں سرحدی انتظام، غیر قانونی نقل و حمل اور غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے لئے سرحدی پولیس ذمہ دار ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں اس فورس کو سرحدی علاقوں میں خصوصی اور کسی حد تک لا محدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں سرحدی محافظوں کو کرپٹ ترین فورس تصور کیا جاتا ہے۔ دشمن ممالک غیر قانونی سرگرمیوں کو محفوظ بنانے کے لئے ایک دوسرے کی سرحدی پولیس میں اثر و نفوذ کی کوشش کرتے ہیں۔ جاسوسوں کے علاوہ سمگلرز بھی سرحدی محافظوں کو خوش رکھنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔ سرحدوں کے اس کھیل میں جاسوس تو سمگلرز کا روپ دھارتے ہیں لیکن کبھی سمگلرز بھی پارٹ ٹائم جاسوسی سے مراعات پاتے ہیں۔ عمومی طور پہ سرحدی دیہات کی معیشت سمگلنگ سے کسی نہ کسی حد تک جڑی ہوتی ہے۔ ایسے دیہات سرحدی پولیس کے لئے سونے کی کان ہوتے ہیں۔ اس پرامن بقائے باہمی کا خطرناک پہلو پولیس اور غیر قانونی معیشت کے غیر تحریری معاہدے کی خلاف ورزی یا کسی خواہش کی عدم تکمیل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ سرحدی محافظ اپنے کسی بھی "ملزم” کو غیر ملکی جاسوس قرار دے کر گرفتار یا مقابلے میں ہلاک کرنے کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔ دراصل سرحدی پولیس کی ساخت اور تربیت ہی ایسی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں انارکی اور لا قانونیت کی روک تھام یا غیر معمولی حالات میں سرحدی پولیس کو شہری علاقوں میں بھی طلب کیا جاتا ہے لیکن ماہرین ایسی کسی فورس کے شہری علاقوں میں طویل قیام کی ہمیشہ مخالفت کرتے اور مقامی پولیس کی حوصلہ افزائی پہ زور دیتے ہیں۔ سرحدی پولیس کی تربیتی ساخت شہری انتظام سے میل نہیں کھاتی اور یہ تضاد ہمہ جہت نقصانات کا موجب بنتا ہے.
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn