Qalamkar Website Header Image

سرحدی پولیس (حاشیے) | مصلوب واسطی

اکثر ممالک میں سرحدی انتظام، غیر قانونی نقل و حمل اور غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے لئے سرحدی پولیس ذمہ دار ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں اس فورس کو سرحدی علاقوں میں خصوصی اور کسی حد تک لا محدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں سرحدی محافظوں کو کرپٹ ترین فورس تصور کیا جاتا ہے۔ دشمن ممالک غیر قانونی سرگرمیوں کو محفوظ بنانے کے لئے ایک دوسرے کی سرحدی پولیس میں اثر و نفوذ کی کوشش کرتے ہیں۔ جاسوسوں کے علاوہ سمگلرز بھی سرحدی محافظوں کو خوش رکھنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔ سرحدوں کے اس کھیل میں جاسوس تو سمگلرز کا روپ دھارتے ہیں لیکن کبھی سمگلرز بھی پارٹ ٹائم جاسوسی سے مراعات پاتے ہیں۔ عمومی طور پہ سرحدی دیہات کی معیشت سمگلنگ سے کسی نہ کسی حد تک جڑی ہوتی ہے۔ ایسے دیہات سرحدی پولیس کے لئے سونے کی کان ہوتے ہیں۔ اس پرامن بقائے باہمی کا خطرناک پہلو پولیس اور غیر قانونی معیشت کے غیر تحریری معاہدے کی خلاف ورزی یا کسی خواہش کی عدم تکمیل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ سرحدی محافظ اپنے کسی بھی "ملزم” کو غیر ملکی جاسوس قرار دے کر گرفتار یا مقابلے میں ہلاک کرنے کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔ دراصل سرحدی پولیس کی ساخت اور تربیت ہی ایسی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں انارکی اور لا قانونیت کی روک تھام یا غیر معمولی حالات میں سرحدی پولیس کو شہری علاقوں میں بھی طلب کیا جاتا ہے لیکن ماہرین ایسی کسی فورس کے شہری علاقوں میں طویل قیام کی ہمیشہ مخالفت کرتے اور مقامی پولیس کی حوصلہ افزائی پہ زور دیتے ہیں۔ سرحدی پولیس کی تربیتی ساخت شہری انتظام سے میل نہیں کھاتی اور یہ تضاد ہمہ جہت نقصانات کا موجب بنتا ہے.

حالیہ بلاگ پوسٹس

منٹو بنام طارق جمیل

ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔ کئی بار میرے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی صوفیانہ اساس پر مذہبی جنونیوں کی یلغار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے

مزید پڑھیں »

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »