Qalamkar Website Header Image

ایران میں کیا ہو رہا ہے

ادارتی نوٹ: ایران میں جاری حالیہ مظاہروں اور احتجاج پر یہ نکتہ نظر شائع کیا جا رہا ہے۔ اگر قارئین میں سے کوئی اس بارے میں یا اپنا نکتہ نظر پیش کرنا چاہے تو قلم کار ایسی تحریروں کو شائع کرے گا۔

انٹرنیشنل میڈیا خصوصا امریکی، برطانوی، اسرائیلی اور عرب جرائد کی گزشتہ چند دنوں کی سرخیوں، تبصروں اور کالموں پر نظر ڈالیں (refer to newsnow iran) تو محسوس ہو گا جیسے ایران میں حکومت اور نظام مخالف کوئی بہت بڑی تحریک چل رہی ہے اور انقلاب کے خلاف کوئی انقلاب ہے جو کہ بپا ہوا چاہتا ہے، ان تبصروں کو دھیان سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ ان جرائد اور ان کے مالک افراد، اداروں اور ریاستوں کی کتنی بڑی اور دلی خواہش ہے کہ عوام بس اپنی حکومت کے خلاف اٹھیں اور اس کا تختہ الٹا کر کسی بھی طرح ایسی حکومت لے آئیں جو مثل شاہ ان کی تابع فرمان ہو جو خطے میں ان کے مذموم ارادوں پہ ناصرف خاموش رہے بلکہ مددگار بھی ثابت ہو۔

ایران کے کچھ شہروں میں پچھلے چند روز سے عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں، تعداد بھی شاید مناسب ہی ہو، البتہ یہ مظاہرے خالصتا ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں اور کچھ مالی اداروں کی بے ضابطگیوں کے خلاف تھے۔ عوام اشیاء ضروریات کی گرانی، بےروزگاری، افراط کی شرح میں اضافے اور چند مالیاتی اداروں/ بینکوں جن میں انہوں نے سرمایہ کاری کی ہوئی تھی کے ڈوبنے اور دیوالیہ قرار دیے جانے کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے جو یقینا ان کا بنیادی جمہوری حق بھی تھا، مظاہرین کا یہ احتجاج روحانی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھا اور یہ اس قسم کے احتجاج تھے جو کم و بییش دنیا کے ہر ملک میں ہوتے ہیں اور عوام کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہیں اور خود ایران میں بزرگ علماء مثلا آیت اللہ حسین نوری ہمدانی نے بھی عوام کے اس حق اور مہنگائی بارے آواز بلند کرنے کی حمایت کی ۔ ان احتجاجات نے اچانک اس وقت نیا موڑ لیا جب مہنگائی اور مالیاتی اداروں کے دیوالیہ پن کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے عوام کے درمیان چند افراد نے نظام اسلامی، رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور داعش کے خلاف عظیم فتح کے روح روا رواں جنرل قاسم سلیمانی کے خلاف نعرے بلند کئے اور غیر ملکی، امریکی، یورپی، صیہونی اور عرب میڈیا نے خاص طور پر ان افراد کے نعروں اور احتجاج کو اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دینا شروع کی اور یہ تاثر دیا کہ یہ احتجاجات خاص اسی ایجنڈہ کے تحت انقلاب اسلامی، رہبر انقلاب اور ریاست کی شام، عراق، لبنان پالیسی کےخلاف ہو رہے ہیں۔

مہنگائی، افراط زر، بےروزگاری اس وقت ایک عالمی ایشو کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے اثرات سے بڑی اقتصادی طاقتیں بھی محفوظ نہیں ، خود امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، یونان، ڈنمارک، سپین میں آئے روز ان معاملات پر احتجاج ہوتے رہتے ہیں، یو اے ای اور سعودی عرب اور دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی کم قیمت اور کنٹرولڈ پیداوار کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہیں اور یہاں لاکھوں تارکین وطن کی نوکریاں ختم کر کے انہیں ان کے ممالک واپس بھیجا گیا ہے اور ٹیکسوں میں بےتحاشہ اضافہ کیا گیا ہے جن پہ گھٹی گھٹی آواز بلند تو ہوتی ہے لیکن آمرانہ بادشاہی نظام کی وجہ سے عوام کو سڑکوں پہ آنے کی قطعا اجازت نہیں دیتی۔ ایسی صورت حال میں ایران جیسے ملک جس کی معیشت کا بنیادی انحصار تیل کی فروخت پر ہے اور جس ملک پر پچھلے 40 سال سے بدترین اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ ان کے اثرات سے محفوظ رہنا ناممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی جانب سے خطہ میں پیدا شدہ شام عراق اور لبنان کی صورت حال اور جنگ کا جواب دینے پہ خرچ ہو رہا ہے، یہ ایسے محاذ ہیں جو براہ راست ریاست جمہوری اسلامی ایران کی خارجہ و دفاعی پالیسی کا ہر اول دستہ اور ریڈ لائن ہیں۔ ایران اگر عراق شام اور لبنان کے محاذ پر امریکہ، اسرائل اور حواریوں سے شکست کھا جاتا ہے تو پھر اس کے اپنے نظریاتی اور جغرافیائی وجود کو براہ راست خطرات لاحق ہو جاتے ہیں لہذا چاہتے نا چاہتے ہوئے بھی ایران کو ان محاذوں پر جو براہ راست شاید اس کے اپنے محاذ نہیں میں کودنا پڑتا ہے۔ ان معاملات کا حتمی نتیجہ سفارتی، دفاعی اور معاشی میدانوں میں مشکلات کی شکل میں سامنے آتا ہے جس کا مقابلہ صرف ایک نظریاتی قوم ہی کر سکتی ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد کے دور کی تاریخ کو دیکھیں تو تمام طاقتوں کی مخالفت، آٹھ سالہ عراق جنگ، بدترین معاشی و اقتصادی پابندیوں اور مشرق وسطی میں اٹھائے گئے القاعدہ و داعش کے فتنوں کے باوجود ایران کی قوم نے بلحاظ ملت ان مشکلات کا بھرپور طریقہ سے مقابلہ کیا ہے اور سرخرو ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  ایران احتجاج ختم، سبق کیا ملا؟

بیرونی محاذوں پہ ناکامی کے بعد عالمی طاقتوں خصوصا امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی طریقہ سے بھی ایران کو اندرونی خلفشار کا شکار کیا جائے جس میں ان کا ہدف خاص طور پہ نظام ولایت فقیہ رہا ہے، اور اس کو ہوا دینے کے لئے پینٹاگون، موساد اور دیگر طاقتیں ہر سال ڈالرز اور ریال میں اربوں کی سرمایہ گزاری کرتی ہیں۔ اس مرتبہ بھی ہوا یہی کی عوام صدر روحانی کی پالیسیوں بارے سڑکوں پر تھے۔ یاد رہے صدر روحانی امریکہ سے ایٹمی معاہدے کو بنیاد بنا کر پہلا اور اس معاہدہ کے ہونے کو "کامیابی” قرار دے کر اور اس کے "ثمرات” عوام تک پہنچانے کے وعدے پہ دوسرا حالیہ الیکشن جیتے، جبکہ اس کے مقابل رہبر انقلاب نے جمہور کے احترام اور اتمام حجت کے لئے جہاں روحانی حکومت کو اس کی پالیسیوں پہ عملدرآمد کی مکمل آزادی دی وہیں اس جانب مسلسل توجہ دلائی کہ امریکہ پر کبھی بھی اعتبار نہی کیا جا سکتا اور حکومت اور عوام کو اس معاہدہ کی کامیابی سے متعلق کوئی امید نہیں باندھنی چاہئیے بلکہ اپنے زور بازو اور خدا کی نصرت کے ساتھ اپنے ملک کی نظریاتی، جغرافیائی، معاشی اور ثقافتی حفاظت کرنی چاہئیے۔ نتیجہ وہی نکلا، روحانی حکومت کی زیادہ تر توجہ امریکہ سے معاہدے کی جانب ہی مبذول رہی جس کی بنیاد پہ شاید اقتصادی میدان میں خود کفالت کی جانب وہ پیش رفت نہ ہو سکی جس کے نتیجے میں ملکی کرنسی مزید کمزور ہوئی، مہنگائی و ٹیکسز بڑھے اور بےروزگاری میں اضافہ ہوا۔ حقیقتا عوام ان امور کے خلاف سڑکوں پہ آئے، لیکن شام و عراق میں شکست کھائی ہوئی استعماری طاقتوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور بھر پور کوشش کی کہ ان مظاہروں کو انقلاب و رہبریت اور ریاست کی شام، عراق و لبنان پالسی کے خلاف عوام کی آواز کے طور پہ پیش کیا جائے جس کے لئے ہر قسم کے جھوٹے اور منفی پروپیگنڈا کا سہارا لیا گیا لیکن حکومت اسلامی اور رہبریت کی جانب سے اس سازش کو خالصتا اخلاقی اور عوامی طریقہ سے ناکام بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھئے:  محبت کیسی ہو؟

1979ء میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد شاہ پرست روشن خیال چند خواتین نے نیم برہنگی کی حالت میں حجاب اسلامی کے خلاف "آزادی زن” کے نام سے مظاہرہ کیا۔ سیکیورٹی کے اداروں نے امام خمینی کو حالات سے آگاہ کیا اور اجازت مانگی کہ بزور طاقت ان خواتین کو وہاں سے ہٹایا جائے کیونکہ انٹرنیشل اور انقلاب مخالف میڈیا اس معاملے کو بہت اچھال رہا تھا، امام خمینی نے طاقت کے استعمال کو سختی سے منع کیا البتہ سرکاری بیان میں حکم دیا کی کل پورے ملک میں وہ خواتین مظاہرہ کریں جو حجاب اسلامی کو پسند کرتی اور چاہتی ہیں، تاریخ بتاتی ہے کہ حجاب کے خلاف مظاہرہ کرنے والی چند سو خواتین کے مقابلے میں پورے ملک میں لاکھوں با حجاب خواتین سڑکوں پہ نکلیں جنہوں نے حجاب اسلامی، قوانین شرعی اور حکومت اسلامی کے حق میں فقید المثل مظاہرہ کر کے اس فتنے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔

2009 کے الیکشن میں جب محمود احمدی نژاد جب دوبارہ صدر جمہور منتخب ہوئے تو مخالفین نے سبز انقلاب کے نام سے تحریک چلائی اور الیکشن میں دھاندلی کا نعرہ لے کر سڑکوں پہ نکل آئے جنہں استعماری اور غیر ملکی میڈیا نے بہت کوریج دی۔ تب بھی ان مظاہروں کو بزور طاقت کچلنے کی بجائے رہبر انقلاب نے اعلان کیا کہ جو افراد ان الیکشن کے نتائج کو صحیح تسلیم کرتے ہیں وہ اپنی رائے کا اظہار کریں اور یوں ایک بار پھر ہزاروں کے مقابلے میں لاکھوں افراد سڑکوں پہ نکلے اور نظام اسلامی پہ اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ اس واقعہ کو ایرانی قوم ‘نہم دی’ کے نام سے یاد رکھتی ہے۔ بالکل اس طرح جب مہنگائی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو اندرونی منافقین اور بیرونی استعمار نے حکومت اسلامی کے خلاف آواز ثابت کرنے کی کوشش کی اور پروپیگنڈا مشینری کو حرکت دی گئ تو امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں نے بغلیں بجانا شروع کیں تو انقلابی قوتوں نے بجائے ان شرپسندوں کو بزور طاقت کچلنے کے اخلاقی، قانونی،جمہوری اور اسلامی جواب اس طریقہ سے دیا کہ 30 دسمبر 2017ء کو ایران کے تمام بڑے شہروں میں لاکھوں مرد و زن اپنے وطن حکومت اسلامی رہبریت اور ریاست کی نظریاتی پالیسیوں کے حق میں سڑکوں پہ تھے۔ مخلص جہاندیدہ قیادت اور عوامی بیداری کی بدولت ایک بار پھر اندرونی نادان اور بیرونی شاطر دشمن کو منہ کی کھانا پڑی اور یوں ایک بار پھر یہ فتنہ اپنی موت آپ مرنے کے قریب ہے۔ زمین پہ کچھ آسائشوں کے ساتھ چند دن زندہ رہ کر بالآخر قبر میں جانے والوں کو کاش یہ بات سمجھ آ جائے کہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے کچھ نا کچھ قربانی دینی ہی پڑتی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس