Qalamkar Website Header Image

محبوب کے نام پہلا اور آخری خط – ثناء بتول

میرے پیارے میری آنکھوں میں بسے سپنے بہت!سوچا کہ تمہیں بتاؤں یا نہیں کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ آج کے دور میں یہ بتانا مشکل ہے نہ ہی اس اظہار کے لیے راستے ڈھونڈنے کی ضرورت۔انٹرنیٹ کی سہولت ہے،موبائل ہے واٹس ایپ ہے میسنجر ہے ایسے میں مجھے اس بات کا خوف قطعاً نہیں کہ میرے خط کو تحریری ثبوت کے طور پہ کوئی پکڑ لے گا۔یہ زمانہ قدیم کی باتیں ہیں پھر میں اتنی نڈر تو ہوں کہ اپنے جذبات کا اظہار کھل کے کر سکوں ۔تم سوچتے ہو گے کہ مجھے خط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بات کسی اور طرح سے بھی کہی جا سکتی تھی ۔

لیکن مجھے فینٹسی میں رہنا اچھا لگتا ہے تو سوچا خط لکھوں مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب تم میری روح میں آ بسے تمہیں عجیب لگے گا کہ میں اور روح کی بات تو سچا ئی یہی ہے تمہاری محبت نے مجھے بتایا کہ واقعی دنیا میں ایسے جذبے بھی ہیں جنہیں ڈیفائن نہیں کیا جا سکتا۔دو جمع دو کر کے بتایا نہیں جا سکتا تو یہی میرے ساتھ ہوا۔ تم میری سوچ میں آ بسے ہو ۔جانتے ہو کہ وہ لوگ جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان کی کوئی ادا، انداز، مسکراہٹ ،سوچنے ،محسوس کرنے یا بولنے کا انداز کب ہمارے وجود کا حصہ بن جاتا ہے ہمیں گمان بھی نہیں ہوتا اور جس لمحے میں ہم یہ محسوس کرتے ہیں اس وقت تک وہ روح تک سما چکا ہوتا ہے ۔اور ایک مطمئن مسکراہٹ کے سوا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا کہ محبوب روح میں اتر چکا ہے ہر سانس میں سما چکا ہے۔

تب قربت اور ساتھ بے معنی ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ہے تم سوچتے ہو گے یہ ولیوں کی باتیں ہیں مجھ جیسی مادیت پسند لڑکی کے منہ سے اچھی نہیں لگتی لیکن ایسا ہی ہوا ۔تم میری روح میری ذات کا اتنا مکمل حصہ ہو جیسے سانس لینے کا عمل کہ نہ لیا تو حرکت ختم زندگی ناپید۔ نہیں جانتی ایسا کیوں ہوا ۔شائید جاننا چاہوں بھی نہیں ۔ جب جذبوں کا پوسٹمارٹم ہو جاتا ہے وہ کھل کے سمجھ آ جائیں تو ان کی کشش اور چارم اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ دریافت میں یہی مسئلہ ہے کہ یہ اسرار کی گرہیں کھول دیتی ہے اور انسان کی فطرت ہے کہ جو چیز بہت واضح ہو اس میں دلچسپی نہیں لیتا خواہ وہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو۔ تم جانتے ہو کہ مجھے ادراک ہے کہ تم اور میں دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔بغاوت اور روایت کی دنیا، حقیقت اور تخیل کی دنیا،بے فکری اور احساس ذمہ داری کی دنیا۔کبی کبھی سوچنے لگتی ہوں کہ کیا ضروری تھا کہ مجھے تم سے ہی محبت ہوتی۔ جہاں ہجر کا طویل صحرا ہے اور دور تک نخلستان کا نام و نشان نہیں.

یہ بھی پڑھئے:  پریڈ سامنے سے دائیں پھر

میرے شاطر ذہن کو تمھارے ساده دل سے ہی شکست ہونا تھی۔ تو وصل و قربت کا کوئی تو امکان ہوتا کہ عقل دھوکے میں رہتی.لیکن نہیں وه محبت ہی کیا جو حقائق جانچے پرکھے اصول بنائے فرار کے راستے کھوجے مقصود کو حاصل کرنے کی جستجو میں دیوانہ وار کوشش کرے یہ تو ایسا جذبہ ہے جو جینے کی امنگ دیتا ہے .محبوب سے بات ہو نه ہو دل اسی سے محو کلام رہتاہے.اس کا خیال کٹھن ترین وقت کو بھی سہل کر دیتا ہے ایک ایسے یوٹوپیا کو تشکیل دیتا ہے جہاں حسن ہے، خوشی ہے ،سکون ہے،جو جسمانی قربت کا خواہاں ہی نہیں .ایک دھن ایک ردھم ہے جو ہر سو طاری ہے جس میں سر مستی و بے خودی ہے سودو زیاں کا خیال نہ کوئی خوف بس محبت، محبت اور محبت۔ میں جانتی ہوں تمہیں میری باتیں عجیب لگی ہوں گی ۔جھوٹ کا گمان گزرے گا ایسا ہونا بھی چاہیے ۔میں اپنی سچائی ثابت کرنے کی کوشش ہر گز نہیں کروں گی کہ میں خود بھی حیران ہوں کہ کیا یہ میرے ہی الفاظ ہیں؟ یا مجھ میں کوئی اور بول رہا ہے ؟

خیر چھوڑو جو بھی ہے ۔مجھے تو بس تمہیں بتانا ہے۔یہ میرا تمہارے نام پہلا اور آخری خط ہے ۔آخری اس لیے کہ یہ فنٹسی میری نسل کاخاصہ نہیں ہے ۔خیال کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو اس کی گرفت زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی ۔مجھے اپنی مصروفیات کو بھی دیکھنا ہے ،اپنے فرائض نبھانا ہے،فیملی کے ساتھ وقت گزارنا ہے،دوستوں کے ساتھ مزے کرنے ہیں۔مجھ میں وہ حوصلہ نہیں ہے جو سوہنی میں تھا کہ بن دیکھے بغیر سوچے سمجھے دریا میں کود پڑے ۔نہ میری محبت اندھی ہے کہ یہ نہ دیکھ پائے کہ اگر میں اسے پا لوں تو کتنے مصائب کا سامنا کرنا ہو گا۔میری محبت کی آنکھیں ہی کیا ،کان ،زبان ،عقل بھی ہے ۔مجھے اپنی سہولیات کو دیکھنا ہے ۔اپنی کمفرٹ زون میں رہنا ہے۔ اور محبت بھی کرنا ہے جو بے غرض ہو کے بھی اپے اندر خودغرضی چھپائے ہوئے ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  اردوئے‘معلیٰ’ کی بجائے اردوئے‘محلہ’-عبدالحنان مغل

سچائی یہی ہے محبت اپنی جگہ زندگی اور اس کا حسن اپنی جگہ ۔تم میرے مشکل وقت کو آسان کرنے کا سامان ہو اور رہو گے ۔اس سے پڑھ کے اور کچھ نہیں۔بہت باتیں ہوئی اب اجازت دو۔خوش رہو۔
تمہاری اپنی
الجھنوں میں گھری دور جدید کی محبوبہ

حالیہ بلاگ پوسٹس