آٹھ مارچ خواتین کا عالمی دن ہے ۔ اس موضوع پر لکھنے کا ایک طریقہ تو یہی ہے کہ روایتی انداز میں اس دن سے جڑی تاریخ کو بیان کیا جائے۔ اس کے بعد چاہیں تو عورت کی عظمت کے قلابے ملائیں یا مظلومیت کے اشتہار بنالیں۔ چاہیں تو اسلام میں عورت کے خوب صورت تصور ان کے حقوق و فرائض پر سطریں تحریر کرکے واہ واہ سمیٹ لی جائے یا غیر اسلامی معاشرے میں عورت کو ایک شے سمجھنے کے معاملے پر حرفِ ملامت کا سلسلہ پایۂ تحریر میں لایا جائے۔لیکن میں جب بھی عورت کے بارے میں یہ سارے تصورات و مفروضات ،حقیقی اور افسانوی تحریریں پڑھتی ہوں تو ہمیشہ خود سے یہی سوال کرتی ہوں کہ اس میں ،میں بطور عورت کہاں فٹ ہوتی ہوں اور اکثر جواب ملتا ہے کہیں نہیں۔
دنیا بنی۔ آدم و حوا کو ایک دوسرے کی خوشی اور سکون کے لئے بنایا گیا۔ بدلتے وقت کے ساتھ مرد نے اپنی جسمانی طاقت یا دوسرے لفظوں میں عورت کے جسمانی طور پر کمزور ہونے کا فائدہ اٹھایا اور معاشرہ ایک پدر سری معاشرے میں تبدیل ہوتا چلا گیا ۔ مغرب میں عورت سے اس کے روایتی کردار سے بڑھ کر جبری مشقت کروائی گئی ۔ ان کو اس حد تک ستایا گیا کہ صدا آئی کہ بس اب اور نہیں۔ بات برابری کی اجرت سے شروع ہوئی اور پھر برابری کے حقوق پر آکر ٹہر گئی۔ اور اسی آٹھ مارچ کے دن کو آگے چل کر خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا۔
مشرق میں اس کے برعکس ایسا اجتماعی جبر کہیں جنم نہ لے سکا کہ خواتین کے منظم گروہ اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے سڑکوں پر نکلنے کی سعی کرتے اورایک اجتماعی انقلابی تبدیلی آنے کی نوبت آسکتی۔ اس خطے میں آنے والے انقلابات کی نوعیت مذہب اور مختلف نظام کے ماننے یا نہ ماننے تک ہی محدود رہا ۔
ایک دور تھا کہ برصغیر میں پردے کا رواج تھا تعلیم سب کے لئے ہی عام نہ تھی عورت کے لئے اور بھی کم تھی ۔پھر انگریز آیا نظام بدلا ، طرز رہائش میں جدت پسندی نے گھر کیا اور رفتہ رفتہ تعلیم عام ہوئی اور پردے سمٹنے لگے۔ وہ ساری ذمے داریاں جو اسلامی (بلکہ دوسرے ہندوستانی مذاہب میں بھی ) مردوں نے اپنے سر لی ہوئیں تھیں ۔ ان میں رفتہ رفتہ عورت نے اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا اور اپنی حیثیت کے ادراک کی سیڑھیاں آہستگی سے طے کرنے لگی۔
فائدہ نقصان سے پرے ذات کی آگہی ، خود کو منوانے کی لگن نے عورت کو آگے سے آگے بڑھنے اور ترقی کی نت نئی منازل طے کرائیں ۔ اور رفتہ رفتہ اس نے مردوں کی بہت سی ذمے داریاں انجانے میں اپنے سر لے لیں۔
اس میں جو چیز مِسنگ تھی وہ تھی مردوں کو ذہنی طورپرمعاشرے کی اس تبدیلی سے ہم آہنگ کرنے کی۔ اُس ذہنی تربیت کی جس میں وہ عورت کے کردار کو اس حد تک تسلیم کرسکتا جس کی وہ حق دار تھی ۔لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ہمارے ہاں اس بات کو نہیں سمجھا گیا کہ مغرب میں عورت کو برابری کے حقوق کے معاملے میں مردوں نے اس کا مکمل ساتھ دیا ۔ اسے انسان سمجھا اور جہاں وہ معاشی ذمے داریوں میں حصہ ڈال رہی تھی وہیں مرد بھی گھریلو ذمے داریوں کو فخر اور خوشی کے ساتھ بانٹ رہا تھا۔
جب کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی ڈاکٹر، ٹیچر یا بینکر بہو کی خواہش تو سب نے پالی لیکن اپنے گھر کے مردوں خصوصا بیٹوں کی تربیت اسی روایتی انداز سے کی جس میں بیوی کے ہوتے خود سے ہل کر پانی پینا بھی مردانگی کی شان کے خلاف سمجھاجاتا ہے ۔ یوں ہمارے معاشرے نے عورت پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیا۔ اس لئے آج ایک پروفیشنل عورت ہونے کے فخر کے پیچھے عورت کی کس قدر محنت شامل ہو تی ہے اس کا صحیح طرح اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔
شہر کے مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کی عورت کے مسائل اور ان سے نکلنے کی چابی صرف عورت کے ہی ہاتھ میں ہے۔ یہ مثبت تبدیلی بھئ صرف ایک عورت ہی لاسکتی ہے کیونکہ اپنے گھر میں اپنے بیٹوں کی تربیت کی ذمے داری اس کے ہاتھوں میں ہے۔
ہر وہ عورت جو گھر سے نکلتی ہے، کام کرتی ہے اور معاشی طور پر اپنے گھر اور فیملی کے لئے اہم کردار ادا کرتی ہے یا گھر کے اندر ہاؤس وائف ہے وہی دراصل ہمارے ملک میں عملی اور انقلابی تبدیلی کا ضامن بن سکتی ہےاور اس کا کلیۂ صرف ان کے اپنے بیٹوں کے حوالے سے خصوصی تربیت پر منحصر ہے ۔ یعنی ایک مرد اور ایک بھائی کی تربیت جنہیں آگے چل کر ایک شوہر اور باپ کی ذمے داری نبھانا ہوتی ہے۔
عورتوں کو اس معاملے میں ، آگہی اور شعور دینے کی بے حد ضرورت ہے ۔ کیونکہ عورت ہی ہے جو معاشرے میں اصل تبدیلی کا استعارہ بن سکتی ہے اگر وہ اپنی اس طاقت کو سمجھ سکے اور اس کا ادراک کرسکے۔
آج کی خواتین ہی ہیں جو اپنے بیٹوں میں عورت کی عزت اور اسے اپنی طرح ایک انسان سمجھ کر عزت دینے کے لئے علاوہ انہیں گھریلو ذمے داریوں میں ان کے حصے سے روشناس کرانے جیسا اہم کام سر انجام دے سکتی ہے ۔ یہ وہ اہم تربیت ہے جو آنے والے وقت میں ایک مثبت معاشرے کی شکل میں سامنے آئے گی اور مجموعی طور پر عورت کے حوالے سے ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں آسکے گا جہاں اسے ایک انسان ہونے کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا اور معاشی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ اس کے والد، بھائی ، شوہر اور بیٹا اس کی دیگر ذمے داریوں کی نہ صرف قدر کریں گے بلکہ ان میں برابر سے اپنا حصہ ڈالیں گے۔
دوسری جانب ہمارے معاشرے کی وہ عورت ہے جو معاشی طور پر بے حد پسماندہ طبقے کا حصہ ہے ۔ جو زیور تعلیم سے محروم ہے اس طبقے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اوّل جہاں عورت ناخواندہ ہے لیکن مردوں کے غیر ذمے دارانہ روئیے اور بڑھتی ہوئی معاشی پریشانیوں نے اسے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ کہیں وہ کھیتوں اور بھٹے پر کام کرتی نظر آتی ہے تو کہیں گھریلو ملازمہ کے طور پر۔ دوم وہ عورتیں جن کا تعلق قبائلی علاقوں اور قدیم روایتوں پر چلنے والے نظام سے ہے جہاں اکیسویں صدی میں بھی افسوس ناک صورت حال ہے اور عورت کی حیثیت جانور سے زیادہ نہیں۔
اس پسماندہ طبقے کے دونوں حصوں کی بہتری میں اگر کوئی مثبت اور فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ ہے ریاست۔ عورت کے حوالے سے ایک ماں کا کردار ادا کرکے اسکے تحفظ اور حقوق کے حوالے سے مناسب قانون سازی اور اسکے نفاذ سے۔ اور سب سے اہم لازمی تعلیم ، موثر ذہن سازی اور کردار سازی کے ذریعے۔ صرف تعلیم کی روشنی ہی ہے جس سے جہالت کے اندھیرے کو شکست دی جاسکتی ہے۔ اور تعلیم سے آنے والے شعور اور معاشی بہتری کے زریعے انہیں رفتہ رفتہ معاشرے کے باقی طبقوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے ۔
آج آٹھ مارچ عورتوں کے عالمی دن پر ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین خود اپنے آپ کو اور اپنی طاقت کو پہچانیں اور معاشرے کی مثبت تبدیلی کے سفر کا آغاز اپنے ہی گھر سے کریں ۔تاکہ آنے والی کل میں آپ کی صنف ایک بہتر معاشرے میں پروان چڑھے۔ جہاں اس کی عزت اور حیثیت نہ صرف ایک خاتون کے طور پر بلکہ ایک انسان کے طور پر بھی تسلیم شدہ ہو ۔ جہاں وہ کُھل کر سانس لے سکے اور وہ زندگی جی سکے گی جو شاید آج ہماری صنف کو اس قدر میسر نہیں۔ اس یقین اور عزم کے ساتھ کے معاشرے کی تبدیلی کا اصل استعارہ ایک عورت ہے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn