یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ محبانِ اہلیبیتؑ اپنے قلوب میں جو مودت، اُنسیت اور ماں کے پیار جیسا احساس سیدہ نساء العالمینؑ کیلئے محسوس کرتے ہیں، وہی احساسات وہ ثانی زہراءؑ سیدہؑ زینبؑ کی ذاتِ مبارک کیلئے رکھتے ہیں۔ یہ پروردگار عالم کا انتظام ہے کہ اُس نے ثانی زہراؑ کو ایسا بنایا کہ جس میں عصمتِ فاطمہ الزہراؑ کا عکس نظر آئے۔ مجھے بہت پراثر محسوس ہوتا ہے جب خواتین سیدہ زینبؑ کی اُسوہ پر عمل کرنے کیلئے عزم ظاہر کرتی ہیں، اُنہیں اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہیں، اُنہیں یاد کرکے "ہائے بی بی” کہہ کر روتی ہیں اور دنیا کو بتاتی ہیں کہ اُن کا سیدہ زینبؑ سے تعلق کس قدر مضبوط ہے۔ یقینا، یہ محبت اور یہ تعلق خواتین کا سرمایہ ہے۔ لیکن جو احساس مجھے نوجوان، ادھیڑ عمر یا ضعیف مردوں کو سیدہ زینبؑ کو یاد کرکے روتے ہوئے، اُن سے توسل کرتے ہوئے یا اُن کے نوحوں پر ماتم کرتا دیکھ کر ہوتا ہے، اُسے الفاظ کی شکل دینا آسان نہیں۔ کبھی ماں کی محبت جیسا احساس، کبھی بے بسی کا احساس، کبھی زبان پر زینبؑ کے مصائیب ہوتے ہیں اور دل میں غازی عباسؑ کا خیال۔
میرے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ اہلیبیتؑ کا ہر وسیلہ ہی دعا کو قبولیت عطا کرتا ہے لیکن میرا ذاتی تجربہ ہے کہ غازی عباسؑ اور سیدہ زینبؑ، یہ دو ایسے وسیلے ہیں کہ ان کے وسیلے سے مانگی گئی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ عباسؑ اور زینبؑ، یہ دونوں وہ نام ہیں جو ٹوٹی ہوئی آس کو جوڑ دیتے ہیں، گرے ہوئے حوصلوں کو بلند کردیتے ہیں اور دم توڑتی ہوئی اُمیدوں کو زندہ کردیتے ہیں۔ ہر برس آٹھ محرم کو جنابِ عباسؑ کے مصائیب سن کر عزاداروں کی آس ٹوٹ جاتی ہے، لیکن پھر تمام سال غازی عباسؑ اُن کی آس ٹوٹنے نہیں دیتے۔ روزِ عاشور کے بعد، شام غریباں آئی تھی اور پھر کوفہ و شام کے مصائب۔ آس ٹوٹ چکی تھی، اُمیدیں دم توڑ رہی تھیں لیکن زینبؑ نے ایسی آس بندھائی کہ چودہ سو برس تک ٹوٹ نہ سکی۔
جناب افتخار حسین عارف نے ان دو ہستیوں کو، ان دو جملوں میں کچھ یوں بیان کیا ہے:”شجاعت صبر کے پیکر میں ڈھل جائے تو زینبؑ وفا امکان سے آگے نکل جائے تو عباسؑ”. کربلا میں روضہ ابو الفضل العباسؑ میں وہ شیلف جن میں زیارات، مناجات کی کتابیں اور قران حکیم کے نسخے رکھے ہوتے ہیں، وہیں زیارت ابوالفضل العباسؑ کی کتاب کے ساتھ زیارتِ سیدہ زینبؑ بنت علیؑ کی کتاب بھی رکھی تھی۔ مجھے تمنا ہوئی کہ میں ضریح عباسؑ کے سامنے سیدہؑ زینبؑ کی زیارت پڑھوں۔ جو میں نے محسوس کیا، وہ مجھ گناہگار کیلئے زندگی بھر کا اثاثہ ہے۔ اب بس یہی خواہش ہے کہ کبھی سیدہ زینبؑ کی ضریح کے سامنے ابوالفضل العباسؑ کی زیارت پڑھ سکوں۔
۸ ربیع الاول کو لاہور میں کربلا گامے شاہ سے ایامِ عزا کا الوداعی جلوس نکلتا ہے۔ اسے چُپ تعزیے کا جلوس بھی کہتے ہیں۔ میں بچپن میں اپنی والدہ کے ساتھ اس جلوس میں جاتا تھا۔ یہ جلوس شام کے وقت کرشن نگر میں ختم ہوجاتا ہے اور پھر مغرب کے بعد سوگ بڑھا دیا جاتا ہے۔ سوا دو مہینے کے سوگ کے بعد شیعہ گھرانوں میں عیدِ زہرا کا اہتمام ہوتا ہے۔ بچپن میں میں اپنی والدہ سے پوچھتا تھا کہ نو ربیع الاول کو کیا ہوا تھا تو مجھے سمجھانے کیلئے اُںہوں نے بتایا تھا کہ اس دن واقعہ کربلا کے بعد سیدہ زینبؑ اور امام سجادؑ پہلی بار مسکرائے تھے، جب انہیں قاتلانِ امام حسینؑ کے فنار ہونے کی خبر ملی تھی۔ میں چھوٹا تھا لیکن یہ سن کر مجھے ہر بار اطمینان اور خوشی محسوس ہوتی تھی کہ آج سیدہ زینبؑ مسکرائی تھیں۔ محرم اور پھر صفر میں جنابِ زینبؑ کے مصائیب اور اُن کا ذکر سننے کے بعد جب یہ سنتا تھا کہ آج بی بیؑ مسکرائیں تھیں تو دل مسرور ہوجاتا تھا۔ یہ احساس آج تک ویسے ہی قائم ہے۔
آج انہی زینب بنت علیؑ کی ولادت باسعادت کا دن ہے، جن کی ایک مسکراہٹ محبانِ اہلیبیتؑ کے قلوب کو مسرور کردیتی ہے۔ ہم اسی مسکراہٹ کر یاد کرتے ہوئے، مولائے کائناتؑ اور سیدہؑ النساء العامینؑ کی بارگاہ میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔
۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn