قیامت بہ طرزِ فُغاں کھینچتے ہیں
زمیں کی طرف آسماں کھینچتے ہیں
نہیں ہم کو آسان کارِ تَنَفُس
کلیجے سے ہردم دھواں کھینچتے ہیں
ہمارا مکاں ہے محلٌے سے باہر
کہ ہم نالۂ ناگہاں کھینچتے ہیں
عجب ہیں کنارہ کشانِ غمِ دل
نَفَس ہر نَفَس رائیگاں کھینچتے ہیں
اِدھرآیتیں ہیں، اُدھر اُن کے حافظ
حسینؑ اب خطِ درمیاں کھینچتے ہیں
خدنگِ تبسم سے بچ حُرملہ اب
علی اصغرؑ اپنی کماں کھینچتے ہیں
کبھی کھینچتے ہیں عمامہ ستم گر
کبھی لاشۂ نیم جاں کھینچتے ہیں
سوا ہے سکینہؑ پہ مشکل کہ اعدا
ردا چھین کر بالیاں کھینچتے ہیں
بلا کی مسافت ہے درپیشِ عابد ؑ
بدِقّت تمام استخواں کھینچتے ہیں
یہ بَیڑی نہیں، بندشِ این و آں ہے
یہ لنگر یہی ناتواں کھینچتے ہیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn